ہم جب تک نبی اکرم ﷺ سے اپنی آل، اولاد، مال، دولت اور جان سے زیادہ محبت نہ کریں ہم اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتے، یہ دنیا کے ہر مسلمان کا ایمان ہے، ہماری زندگی عشق رسولﷺ سے شروع ہوتی ہے اور عشق رسولﷺ پر ختم ہو جاتی ہے۔
دنیا کا شاید ہی کوئی مسلمان ہوگا جس کی آنکھیں نبی رسالتﷺ کے ذکر پر نم نہ ہوں اور جس کا دل ذکر رسولﷺ پر تڑپتا نہ ہو، علامہ اقبال سے کسی نے عرض کیا “جناب میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے میں نبی اکرمﷺ کی زیارت کر وں، میری خواہش کیسے پوری ہو سکتی ہے؟”
علامہ صاحب نے جواب دیا “آپ نبی اکرمﷺ کے اسوہ حسنہ کو اپنا شعار بنا لیں، اپنی زندگی کو نبی اکرمﷺ کی سنت میں ڈھال لیں آپ کو نبی اکرمﷺ کا دیدار نصیب ہوجائے گا” یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے، سنت رسولﷺ کیاہے؟ کیا یہ چند اچھی عادتوں کانام ہے یا پھر یہ زندگی کا کوئی مفصل قرینہ اور سلیقہ ہے۔ سنت محض چند اچھی عادتوں کا مجموعہ نہیں یہ اسلام کی طرح ایک ایسا مکمل زاویہ حیات ہے جو کائنات کے آخری انسان تک کی رہنمائی کرتاہے۔
آپﷺ کی حیات کیا تھی؟ یہ تبلیغ اور اعلان نبوت سے پہلے صداقت اور امانت تھی، آپﷺ نے لوگوں کو ایمان کی دعوت دینے سے پہلے خود کو اس طرح صادق اور امین اسٹیبلش کیا تھا کہ ابو جاہل اور ابو لہب جیسے لوگ بھی امانت اور صداقت کی گواہی دیتے تھے۔ حضورﷺ کی حیات کازیادہ تر وقت علم بانٹنے میں صرف ہوتا تھا، اصحاب آپ ﷺسے علم، دانش اور عقل سیکھتے تھے، علم دوستی کا یہ عالم تھا غزوہ بدر کے قیدیوں کو پیش کش فرمائی تم مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھادو ہم تمہیں رہا کر دیں گے، مسجد نبویﷺ میں صفہ کا چبوترہ بنوایا اور صحابہؓ کو اس چبوترے پر علم دینا شروع کر دیا۔
تعلیم کی اہمیت پر جتنا ذور آپ ﷺ نے دیا اتنا شاید ہی کسی نے دیا ہو، جدید دنیا نے اسی ماڈل کو فالو کیا اور وہ زمانے میں معزز ہو گئے، امریکا میں ساڑھے تینتیس کروڑ لوگوں کے لیے اس وقت 4000 کے قریب یونیورسٹیز ہیں، انڈو نیشیا کی آبادی ساڑھے ستائیس کروڑ ہے اور یونیوسٹیز کی تعداد 3150 ہے جب کہ پاکستان کے 25 کروڑ لوگوں کے لیے صرف244 یونی ورسٹیز ہیں اور ہماری ان یونیورسٹیز کی کوالٹی آف ایجوکیشن اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی پاکستان میں تقریبا ً3 کروڑ بچے اسکول نہیں جا رہے، یہ دنیا کے 98 ممالک کی آبادی سے زیادہ تعداد ہے اور ہم دنیا سے مقابلے کے خواب دیکھ رہے ہیں، آپ دنیا کے کسی ایک معاشرے کی مثال نہیں دے سکتے جو تعلیم کے بغیر آگے بڑھ سکا ہو۔
ریڈ فاؤنڈیشن ایک ایسا ادارہ ہے جو پاکستان میں تعلیم پر بے تحاشا کام کر رہا ہے، میں گزشتہ چند سالوں سے اس ادارے کے ساتھ منسلک ہوں، ریڈفاؤنڈیشن نے 1994میں کشمیر سے اپنے کام کا آغاز کیا، یہ اب پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور سندھ تک اپنے کام کو پھیلارہا ہے، فاؤنڈیشن نے 400 تعلیمی ادارے اور ڈیڑھ سو کے قریب لٹریسی سینٹر بنائے ہیں، دور دراز دیہاتوں میں اسکولز کی شان دار عمارتیں بنائی ہیں جن میں سوا لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں، میں ان کے اداروں میں جاتا ہوں، بچوں کو تعلیم حاصل کرتے دیکھتا ہوں تو دل خوشی سے باغ باغ ہو جاتا ہے۔
ریڈ فاؤنڈیشن تعلیم کے ذریعے تبدیلی پر یقین رکھتی ہے، سیکڑوں ڈاکٹرز، انجینئرز اور دیگر شعبوں سے وابستہ افراد اس ادارے سے فارغ ہونے کے بعد اندرون ملک اور باہر کے ممالک میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں، یہ طلباء اپنے خاندانوں پر بوجھ بننے کے بجائے ان کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔ فاؤنڈیشن کے تعلیمی اداروں سے ایسے یتیم بچوں نے تعلیم حاصل کی ہے جن کے وسائل نہ ہونے کے برابر تھے، میں ایک ایسے بچی کو جانتا ہوں جس کا تعلق لیپہ آزاد کشمیر سے ہے، اس بچی کا نام انعم مقبول ہے۔
انعم عزم و حوصلے کی ایک داستان ہے، یہ جس علاقے میں رہتی ہے وہ پاکستان اور ہندوستان کا بارڈر ہے، یہاں آئے روز گولہ باری ہوتی رہتی ہے، ان مشکل حالات میں یہاں فاؤنڈیشن کے اسکولز علم کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں، یہ بچی ریڈ فاؤنڈیشن کے ایک تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم تھی، بمباری کے دوران اس بچی کو زیر زمین بنکرز میں کئی کئی دن رہنا پڑتا تھا، ریڈ فاؤنڈیشن کی اس ہونہار طالبہ نے میٹرک کے امتحان میں پوزیشن حاصل کی، آج یہ بچی میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔
رضا ایک ایسا بچہ ہے جس کے والد آرمی میں تھے، یہ 2005 کے زلزلے میں شہید ہوگئے، اس یتیم بچے کا گھر فاؤنڈیشن کے تعلیمی ادارے سے کافی دور تھا، اس کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسکول کے پرنسپل نے اسے اپنے گھر میں رکھا، اس بچے نے سب کو حیران کر دیااور میٹرک کے امتحان میں پوزیشن حاصل کی، کیڈٹ کالج میں داخلہ لیا اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی، آج یہ بچہ خود کفیل ہے۔
شائستہ کا تعلق ایک ددر دراز گاؤں سے ہے، اس بچی کے والد کو ہیپاٹائٹس ہوا، وہ فوت ہوگئے، بچی نے ڈاکٹر بننے کا عزم کیا، ریڈ فاؤنڈیشن نے اس بچی کا ہاتھ تھا م لیا، اس بچی نے محنت کی اور کام یابیوں کا سفر طے کرتی گئی، یہ آج ڈاکٹر ہے، روزانہ سیکڑوں مریضوں کا علاج کرتی ہے، شائستہ آج اپنے علاقے کے لیے ایک مثال ہے، ایک ایسا علاقہ جہاں بچیوں کی تعلیم کا کوئی رحجان نہیں تھاوہاں آج درجنوں بچیاں ڈاکٹرز، انجینئرز، ٹیچرز اور وکیل بن چکی ہیں۔
یہ صرف چند بچوں کی کام یابی کی داستانیں ہیں، گزشتہ 28سال میں فاؤنڈیشن کے تعلیمی اداروں سے ایسے ہزاروں بچوں نے تعلیم حاصل کی، ہر بچہ کام یابی کی ایک داستان ہے، ان بچوں کی کام یابی میں ان ڈونرز کا بہت بڑا کردار ہے جن کی بدولت ان کو یہ موقع ملا، یہ بچے اپنے ڈونرز کے لیے صدقہ جاریہ ہیں، ریڈفاؤنڈیشن کے 400تعلیمی اداروں میں اس وقت سوا لاکھ بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان بچوں میں 13000 یتیم بچے بھی شامل ہیں اور یہ بچے کمال کر رہے ہیں، یتیمی اورغربت کو ان بچوں نے اپنی طاقت بنایا ہے۔
فاؤنڈیشن ان بچوں کی ماؤں کی تربیت کرتی ہے، ان کو موٹی ویٹ کرتی ہے، بچوں کو حوصلہ دیتی ہے، ان کو یونیفارم، کتابیں، ا سٹیشنری حتیٰ کہ جوتے جرابیں تک مہیا کرتی ہے، ان یتیم بچوں کے گھروں میں راشن فراہم کرتی ہے، فاؤنڈیشن ان بچوں کی مکمل معلومات ڈونرز کو فراہم کرتی ہے، ڈونرز کو ان بچوں کی کارکردگی سے آگاہ کرتی ہے اگر ڈونرز ضرورت محسوس کریں تو ان سے ملاقات کا اہتمام کرتی ہے اور یہ سب درد دل رکھنے والے پاکستانیوں کے تعاون سے ممکن ہو رہا ہے۔
ربیع الاول کے اس مہینے میں ہمیں تعلیم کے محمدیﷺ ماڈل کو عام کرنا ہوگا، آپ حالات سے مایوس ہیں تو اس کا واحد حل یہ ہے کہ اپنے حصے کا دیا روشن کریں، ریڈفاؤنڈیشن اس کام میں آپ کی معاون ہوگی، آپ کسی بچے کو تعلیم دیں، کوئی اسکول بنائیں، کسی اسکول کی عمارت تعمیر کریں، کسی اسکول کو سائنس اور کمپیوٹر لیب فراہم کریں، جو کر سکتے ہیں وہ کریں، آپ صرف 48000 سالانہ یا صرف 4000 روپے ماہانہ سے ایک یتیم بچے یا بچی کی مکمل تعلیمی کفالت کر سکتے ہیں، یہ یتیم بچہ خودکفیل ہوگاتو اس کا خاندان سنور جائے گا۔
یہی بچے کل اس ملک کی ترقی کے ضامن ہوں گے، اللہ نے اگر آپ کو عطا کیا ہے تو نبی اکرمﷺ کی سنت پر عمل کیجیے، تعلیم کے سفر میں روشنی کے سفیر بن جائیں، کسی یتیم بچے کا سہارا بن جائیں، میری آپ سے گزارش ہے اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے زیادہ سے زیادہ بچوں کی کفالت کا ذمے لیں، کم از کم ایک بچے یا بچی پر اپنا دست شفقت ضرور رکھیں اگر یہ نہیں کر سکتے تو جو بھی حصہ ڈال سکتے ہیں وہ ڈالیں۔
یہ رقم یتیم بچوں کے لیے قائم پول فنڈ میں جمع ہوگی اور فاؤنڈیشن اس پول فنڈ سے ان ضرورت مند بچوں کو تعلیم بھی دے گی، ان کی تربیت بھی کرے گی، ان میں امید اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ بھی پیدا کرے گی، ان بچوں میں سے کوئی بچہ نکل آئے گا جو اس ملک کی تقدیر بدل دے گا، وہی بچہ آپ کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے گا۔