عبدالرزاق ساجد برطانیہ میں رہتے ہیں، یہ استعمال شدہ کپڑوں کا کاروبار کرتے ہیں، عاشق رسولﷺ ہیں، رسول اللہ ﷺ کا نام آتے ہی ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں، بچپن میں اے ٹی آئی (انجمن طلباء اسلام) سے وابستہ ہو گئے، انجمن نے ان کی فکری اور روحانی تربیت کی اور یہ پک کر کندن بن گئے، 2006 میں برطانیہ میں المصطفیٰ ٹرسٹ بنایا اور کمال کر دیا۔
یہ ٹرسٹ پوری مسلم دنیا میں کام کر رہا ہے، اس کے ورکرز اس وقت بھی غزہ میں برستے بموں کے درمیان فلسطینی بہن بھائیوں کی مدد کر رہے ہیں، المصطفیٰ ہر شعبے میں کام کرتا ہے لیکن آنکھیں ان کی “مین جاب” ہیں، ٹرسٹ نے نومبر 2020 میں لاہور میں آنکھوں کا پہلا فری اسپتال بنایا اور یہ اب اسلام آباد میں بھی اسپتال بنا رہے ہیں۔میں المصطفیٰ آئی ٹرسٹ کی مدد سے ہر سال اپنے گاؤں شاہ سرمست میں آئی کیمپ لگواتا ہوں، ہم نے چار نومبر کو چوتھا کیمپ لگوایا، ڈاکٹروں نے آئی کیمپ میں ایک دن میں 766 مریض دیکھے، ان میں سے 132 مریضوں کے آپریشن ہوئے اور یہ اب الحمد للہ دیکھ سکتے ہیں، یہ خدمت مکمل طور پر فری ہوتی ہے، مریضوں کو کھانا بھی دیا جاتا ہے۔
آپریشن بھی ہوتے ہیں اور ادویات اور عینکیں بھی مفت دی جاتی ہیں، آپریشن کے ساتھ ساتھ مریضوں کے تمام میڈیکل ٹیسٹ بھی ہوتے ہیں، چار نومبر کے کیمپ میں بھی ہیپاٹائٹس بی، سی اور ایڈز کے 163 ٹیسٹ ہوئے، بلڈ شوگربھی چیک کی گئی، ٹیسٹوں کے بعد پتا چلا مریضوں میں ہیپاٹائٹس سی کے 13 مریض ہیں جب کہ دو ایڈز کے مریض بھی نکل آئے، ایڈز اور ہیپاٹائٹس سی کے مریض اپنے مرض کے بارے میں بالکل نہیں جانتے تھے۔
ایڈز کا ایک مریض اپنے مرض کے بارے میں جان کر کیمپ سے غائب ہوگیا جب کہ دوسرے مریض کو ڈاکٹر نے مرض کے بارے میں نہیں بتایا، کیوں؟ کیوں کہ اسے خطرہ تھا یہ بھی غائب ہو جائے گا، اس مریض نے آپریشن کرایا اور یہ اپنے گھر چلا گیا، ہم اب پنجاب حکومت کی مدد سے اسے علاج کے لیے تیار کر رہے ہیں اور اس کے خاندان اور دوست احباب کے ٹیسٹ کرا رہے ہیں، ہم اسی طرح ہیپاٹائٹس سی کے 13 مریضوں کو بھی علاج کے لیے رضا مند کر رہے ہیں لیکن یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔
یہ 15 لوگ برسوں سے ان موذی امراض میں مبتلا ہیں اور یہ بیماریاں خون کے ذریعے ایک سے دوسرے شخص کو لگتی ہیں لہٰذا یہ لوگ نہ جانے اب تک کتنے لوگوں کو موت کی دہلیز تک پہنچا چکے ہوں گے، ان کے خاندانوں کے اندر بھی کیا صورت حال ہوگی اور ان کے ہمسائے، دوست اور رشتے دار بھی اب تک ان سے بیماری کے کتنے تحفے وصول کر چکے ہوں گے؟ ہمارے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں۔ہم ایڈز کو جنسی بیماری سمجھتے ہیں، ہمارا خیال ہے یہ بیماری غیر محفوظ جنسی تعلق یا پھر بے راہ روی کی وجہ سے پھیلتی ہے، ہیپاٹائٹس سی کے بارے میں بھی یہی تاثر ہے لیکن حقیقت یہ ہے ان دونوں بیماریوں کے پھیلاؤ کی 14 وجوہات ہیں اور ان 14 وجوہات میں سے جنسی عمل صرف ایک وجہ ہے۔
ہو سکتا ہے یہ بیماری خون دینے یا لینے کی وجہ سے لگ گئی ہو یا پھر کسی دوسرے شخص کا استرا، ریزر یا ٹوتھ برش استعمال کرنے سے لگ گئی ہو یا پھر یہ کسی دندان ساز یا سرجن کی مہربانی ہو وغیرہ وغیرہ، اس کی تیرہ وجوہات ہو سکتی ہیں اور ہم جب تک یہ وجوہات تلاش نہیں کرتے، ہم بیماریوں کو نہیں روک سکتے، شروع میں ان دونوں بیماریوں کے دو خوف ناک نتائج نکلتے ہیں، ایک، لوگ مریض سے میل ملاپ سے پرہیز کرتے ہیں اور یہ اور ان کا خاندان سوشل بائیکاٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور دو، مریض علاج سے پہلے پورے گاؤں کو بیمار کر چکا ہوتا ہے۔
میں نے بھارت کے بارے میں پڑھا تھا وہاں ایک عورت کی وجہ سے پورا گاؤں ایڈز کا شکار ہوگیا تھا اور حکومت کو بالآخر پورے گاؤں کا محاصرہ کرکے ایڈز کو پھیلنے سے روکنا پڑا، اسی طرح ایک وقت میں تھائی لینڈ دنیا میں ایڈز کا سب سے بڑا مرکز ہوتا تھا اور لوگ جہاز میں بھی اس کے اوپر سے گزرتے ہوئے ڈرتے تھے لیکن ایک ڈاکٹر نے پورے ملک کو ایڈز فری کر دیا، اس ڈاکٹر نے صرف سیکس ورکرز پر کام کیا، انھیں محفوظ جنسی تعلق کی ٹریننگ دی اور پورے ملک کو ایڈز فری کر دیا۔
پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق ملک ا ہر وہ شہر اور قصبہ ایڈز اور ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہے جس کے قریب ٹرکوں کے اڈے ہیں اور یہ اڈے پورے پورے شہر کو ان امراض کا شکار بناتے چلے جا رہے ہیں۔حکومت ہر سال ایڈز اور ہیپاٹائٹس پر اربوں روپے خرچ کرتی ہے، ہم باہر سے بھی امداد حاصل کرتے ہیں مگر اس کے باوجود ہم آج تک ان خوف ناک بیماریوں کا تدارک نہیں کر سکے، کیوں؟ کیوں کہ ہم ان بیماریوں کو جڑ سے نہیں پکڑ رہے اور جڑ سے پکڑنے کا طریقہ میڈیکل ٹیسٹ ہیں، ہم ٹیسٹوں کے بغیر مریضوں کا علاج شروع کر دیتے ہیں اور یوں ہمیں بیماریوں کا علم ہی نہیں ہوتا۔
میری حکومت سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر ان تمام بیماریوں کے ٹیسٹ لازم قرار دے دیں جو ایک شخص سے دوسرے کو لگ سکتی ہیں، مجھے یقین ہے حکومت کا جواب ہوگا 25 کروڑ لوگوں کے ٹیسٹ کیسے ہو سکتے ہیں؟ بے شک یہ کام مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں، حکومت عالمی باڈیز سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو کٹس لے کر دے سکتی ہے اور بسپ امداد لینے والے تمام شہریوں کے ٹیسٹ کر سکتی ہے۔
حکومت پرائیویٹ پریکٹس کرنے والے تمام ڈاکٹروں کو بھی پابند کر سکتی ہے یہ اپنے تمام مریضوں کے ٹیسٹ کرائیں گے اور ان کا ڈیٹا بھی جمع کریں گے، اسکولوں اور کالجوں میں بھی میڈیکل ٹیسٹ لازم قرار دے دیے جائیں، نکاح کے لیے بھی ہر صورت 9 بیماریوں کا ٹیسٹ لازم ہو اور جب تک رپورٹ جمع نہ ہو اس وقت تک نکاح رجسٹرڈ نہ ہو، شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس، بینک اکاؤنٹ اور موبائل فون سم کے لیے بھی میڈیکل ٹیسٹ لازم ہوں، ان کی تجدید کے لیے بھی رپورٹس لازمی ہوں۔
اسی طرح ویلفیئر کا کام کرنے والے اداروں کو بھی پابند بنایا جائے، یہ بھی امداد لینے والوں کے ٹیسٹ کرائیں، میڈیکل ٹیسٹوں کے لیے این جی اوز بنانے کے رجحان میں بھی اضافہ کیا جائے، یہ کام اخوت، سیلانی ٹرسٹ، الخدمت، ریڈ فاؤنڈیشن اور کاروان علم جیسی فاؤنڈیشنز بڑی آسانی سے کر سکتی ہیں، بینکوں، سوئی گیس اور واپڈا کو بھی پابند کیا جا سکتا ہے۔
یہ ٹیسٹوں کی رقم بلز میں شامل کرکےاپنے گاہکوں کی رپورٹس حاصل کر یں اور تمام کمپنیوں کو بھی پابند کیا جائے یہ چھ ماہ بعد اپنے ملازمین کے ٹیسٹ کرائیں لہٰذا میرا خیال ہے اگر خواہش ہو تو یہ کام ناممکن نہیں، آپ صرف جماعت اسلامی، تبلیغی جماعت اور جماعت الدعوہ کو یہ ٹاسک سونپ دیں تو یہ لوگ ایک مہینے میں آدھے ملک کے ٹیسٹ کرا دیں گے تاہم حکومت کو ان بیماریوں کی سستی کٹس بنوانی پڑیں گی اور یہ بھی کوئی ناممکن کام نہیں چناں چہ ہم اگر چاہیں تو یہ عین ممکن ہے لیکن شاید یہ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
میں یہاں ایک اور ایشو کی طرف بھی آپ کی توجہ مبذول کراتا چلوں، پاکستان شوگر، بلڈ پریشر، گردوں کے فیلیئر اور جگر کی بیماریوں میں دنیا میں ٹاپ پر ہے، ہم شوگر میں پہلے، ہیپاٹائٹس میں دوسرے، گردوں کے امراض میں آٹھویں اور امراض قلب میں جنوبی ایشیا میں پہلے نمبرپر ہیں اور جدید تحقیق کے مطابق ان تمام بیماریوں کا تعلق لائف اسٹائل اور خوراک سے ہے اور ہم اپنی خوراک میں تھوڑی سی تبدیلی اوراپنا لائف اسٹائل بدل کر بڑی آسانی سے میڈیسن فری زندگی گزار سکتے ہیں، بھارت اور امریکا میں باقاعدہ انقلاب آ چکا ہے۔
لاکھوں لوگ اب ادویات کے بغیر صحت مند زندگی گزار رہے ہیں، ہم بھی اگر پاکستان میں تھوڑی سی توجہ دیں، ہم لوگوں کے کھانے پینے، سونے جاگنے، کام کرنے اور سیروتفریح کی روٹین بدل دیں تو ہم پوری آبادی کو صحت مند بنا سکتے ہیں مثلاً ہم اگر اپنی خوراک میں روٹی اور چاول کی مقدار کم کر دیں، سبزیاں بڑھا لیں، بازار کا کھانا بند کر دیں۔روزانہ کم از کم دس ہزار قدم پیدل چلنا لازم کر دیں، جاپان کی طرح پورے ملک کو صبح اور شام دس دس منٹ ایکسرسائز کے لیے رضا مند کر لیں، حکومت ایکسرسائز کا ایک پیکیج تیار کرے اور ٹی وی، ریڈیو اور موبائل فون کمپنیوں کو پابند کردے یہ صبح اور شام سات بجے پورے ملک کو یہ ایکسرسائز دکھائیں گی۔
صبح اسکولوں میں بھی ایکسرسائز لازم ہو اور دفتروں اور پبلک مقامات پر بھی تو میرا خیال ہے ہم پانچ دس برسوں میں پوری قوم کو صحت مند بنا سکتے ہیں، ہم اسی طرح یہ فیصلہ بھی کر لیں جہاں کینٹین ہوگی وہاں جم بھی ضرور ہوگا اور اسکول چھوٹے ہوں یا بڑے وہاں ایکسرسائز لازم ہوگی، دیہات میں مولوی حضرات ہر نماز کے بعد تمام نمازیوں کو ساتھ لے کر واک یا ایکسرسائز کرائیں گے اور ہم سب بازار، دفتر یا اسکول پیدل جائیں گے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو آدھا یا ایک چوتھائی فاصلہ پیدل طے کریں گے تو اس سے بھی ملک میں انقلاب آ جائے گا اور یہ انقلاب کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔پوری جدید دنیا میں یہ دونوں کام ہو رہے ہیں، ہم نے بس ان پر عمل کرنا ہے اور نتائج پوری دنیا کو حیران کر دیں گے اور خدانخواستہ ہم نے اگر اب بھی آنکھیں نہ کھولیں تو اس بیمار قوم کو مارنے کے لیے کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہوگی، یہ خود ہی اپنی بیماریوں کے بوجھ تلے دب کر ختم ہو جائے گی۔