میرے ایک بے حد عزیز دوست ہیں جنہیں سفر کرنے کا بہت شوق ہے، اس شوق کی تکمیل کی خاطر وہ اپنے پاسپورٹ پر مختلف ممالک کے ویزے لگوا کر رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے امریکہ کے ویزے کی درخواست دی جو قبول ہو گئی، سفارت خانے نے انہیں نیلے رنگ کا ایک پرچہ تھما دیا جس پر ’ویزہ منظور ہے‘ لکھا ہوا تھا اور کہا کہ پاسپورٹ چند روز میں مل جائے گا۔ تاہم کچھ دنوں تک جب پاسپورٹ نہیں آیا تو انہیں بے چینی ہوئی، پتا کیا تو معلوم ہوا کہ ان کے پاسپورٹ کی ’انتظامی جانچ‘ کی جا رہی ہے جس میں کچھ وقت لگے گا۔ موصوف نے مجھے فون کر کے یہ بات بتائی اور پھر پریشان ہو کر پوچھا کہ اب کیا ہو گا۔ میں نے کہا کہ جناب کا ویزہ منظور ہو چکا ہے سو فکر نہ کریں، جلد یا بدیر پاسپورٹ آ جائے گا۔ انہوں نے جواب میں دیا ’وہ تو ٹھیک ہے مگر ٹینشن شروع ہو گئی ہے۔ ‘ اس پر میں نے انہیں غالب کا شعر سنایا جو میرے پسندیدہ اشعار میں سے ایک ہے۔ ’نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانیے، بے صدا ہو جائے گا یہ ساز ہستی ایک دن۔‘ میں نے کہا کہ اس شعر کو فریم کروا کے اپنے گھر میں لٹکا لیں تاکہ اٹھتے بیٹھتے آپ کی نظر پڑتی رہے، جو موٹیویشن اس شعر میں ہے وہ کسی کتاب سے نہیں ملے گی۔ زندگی کبھی بھی ایک ڈگر پر روانی سے نہیں چلتی، جب تک آپ زندہ ہیں یہ آپ کو حیران کرتی رہے گی، کبھی یہ حیرانی خوشگوار ہوگی اور کبھی آپ کو جھٹکا لگے گا، یہ ممکن نہیں کہ آپ سکون میں رہیں، سکون صرف قبر میں ہے، لہذا زندگی میں ملنے والے غموں کو بھی غنیمت جانیے، اگر آپ غموں سے نجات چاہتے ہیں تو پھر زندگی کو خدا حافظ کہنا پڑے گا۔ میں نے مور اوور کے طور پر یہ بھی کہا کہ زیادہ سے زیادہ آپ کا ویزہ مسترد ہو جائے گا، کیا فرق پڑتا ہے، آپ کو اللہ نے اتنے وسائل دیے ہیں کہ امریکی شہریت قیمتاً خرید سکتے ہیں سو ٹینشن کس بات کی! میری اس مختصر سی تقریر کا ان کا پر خاصا مثبت اثر ہوا، موصوف کی طبیعت ہشاش بشاش ہو گئی اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔
مجھے اس بات کا احساس ہے کہ یہاں لوگ بد ترین حالات میں رہ رہے ہیں، ان کے پاس دو وقت کی روٹی کے پیسے نہیں، ان کے بچے کوڑے کے ڈھیر سے چیزیں تلاش کر کے کھاتے ہیں، یہ منظر ہم روزانہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور پتھر دل ہو کرپاس سے گزر جاتے ہیں۔ جنگی علاقوں میں تو صورتحال اور بھی سنگین ہے جہاں بے یار و مدد گار عورتیں اور بچے کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں، ہم برگر اور پیزا کھاتے ہوئے انہیں ٹی وی پر دیکھتے ہیں اور پھر چینل تبدیل کر دیتے ہیں تاکہ ہمارا موڈ خراب نہ ہو، افغانستان سے لے کر غزہ تک غموں کی نا ختم ہونے والی یہ داستان ہر طرف بکھری ہوئی ہے۔ غالب کا شعر یقیناً ان افتادگان خاک کے غموں کا مداوا نہیں کر سکتا کیونکہ جیسی زندگی یہ لوگ گزار رہے ہیں اس سے شاید موت ہی بہتر ہے۔ دوسری طرف اس دنیا میں متمول، خوشحال اور کھاتے پیتے لوگ ہیں، ان کی بے سکونی کی وجوہات مختلف ہیں، غالب کا شعر ان لوگوں کے لیے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی غیر متوقع واقعات کا مجموعہ ہے، یہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے، بقول چارلی چپلن Life is a tragedy when seen in close۔up، but a comedy in long۔shot ۔ ان حالات میں اگر آپ کی زندگی میں یہ چند چیزیں ہیں تو سمجھ لیں کہ آپ خوش قسمت ہیں اور ان پانچ فیصد لوگوں میں شامل ہیں جو ان ’عیاشیوں‘ کے متحمل ہو سکتے ہیں۔
پہلی چیز ہے صحت۔ یہ بات جتنی پرانی ہے اتنی ہی درست ہے۔ جب آپ کی صحت ٹھیک نہیں ہوتی تو پوری دنیا زہر لگتی ہے۔ ہم اپنے جسم کی اتنی بھی حفاظت نہیں کرتے جتنی گاڑی کی کرتے ہیں، گاڑی جب چار پانچ سال کام نکالنے لگتی ہے تو اسے بیچ دیتے ہیں، لیکن یہ نہیں سوچتے کہ خدا نے ہمیں ایک ہی جسم دیا ہے جسے سو سال چلنا چاہیے، اس کی دیکھ بھال کرنے میں لاپروائی برتتے ہیں حالانکہ ہمیں اسے کم از کم ٹویوٹا کرولا جتنی اہمیت تو دینی چاہیے۔ دوسرے نمبر پر مالی آسودگی ہے۔ کسی زمانے میں کریڈٹ کارڈ کا اشتہار چلا کرتا تھا جس کی ٹیگ لائن تھی کہ دنیا میں چند چیزیں ایسی ہیں جو خریدی نہیں جا سکتیں، باقی سب کے لیے کریڈٹ کارڈ ہے نا۔ یہ بات درست ہے کہ اسی فیصد مسائل پیسے کی مدد سے حل کیے جا سکتے ہیں حتیٰ کہ بیماری کا علاج بھی اسی صورت میں ممکن ہے اگر آپ کے پاس وسائل ہیں بشرطیکہ بیماری لا علاج نہ ہو۔ شاہ رخ خان کا موقف اس معاملے میں بالکل واضح ہے، وہ کبھی جذباتی انداز میں نہیں کہتا کہ زندگی میں پیسے کی کوئی اہمیت نہیں، اس کے برعکس وہ ہمیشہ نوجوانوں پر زور دیتا ہے کہ پہلے اپنی زندگی میں مالی آزادی حاصل کرو اس کے بعد زندگی کی بے ثباتی کے بارے میں سوچتے رہنا۔ کسی نے شاہ رخ خان سے پوچھا کہ کیا آپ کا دل نہیں کرتا کہ عام آدمی کی طرح ساحل پر چہل قدمی کرتے ہوئے آئس کریم کھائیں، کنگ خان نے جواب دیا کہ بالکل نہیں، میں وہی رہنا چاہتا ہوں جو میں ہو، میں نے اگر ساحل پر جانا ہو گا تو پرائیویٹ جیٹ میں جاؤں گا، فائیو سٹار ہوٹل میں ٹھہروں گا اور وہیں آئس کریم منگوا لوں گا۔ ایسی صاف گوئی بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ تیسری بات، محبت۔ اگر دنیا میں دو چار ایسے لوگ ہیں جو آپ سے بغیر کسی لالچ کے محبت کرتے ہیں تو آپ خوش قسمت ہیں، یہ لوگ آپ کے بیوی بچے، ماں باپ، بہن بھائی بھی ہوسکتے ہیں اور دوست احباب اور محبوب بھی۔ پانچویں چیز ہے تحفظ۔ پاکستان جیسے ملک میں یہ بہت اہم ہے، ضروری نہیں کہ یہ تحفظ پیسے سے حاصل ہو، اس کے لیے طاقت اور اختیار چاہیے، اسی لیے دولت مند لوگ با اثر لوگوں سے تعلقات استوار کرتے ہیں۔ یہ تعلقات زندگی میں بے حد اہم ہوتے ہیں، تنہا انسان وہ سب کچھ نہیں کر سکتا جو تعلقات کو استعمال کر کے کیا جا سکتا ہے۔ دو چیزیں ایسی ہیں جس کے لیے پھر پیسے ہی کی ضرورت ہے، ایک ہے، فیصلہ کرنے کی آزادی اور دوسری ہے سفر کی سہولت۔ دنیا میں لوگوں کا استحصال اس لیے ہوتا ہے کہ ان کے پاس کوئی دوسری راہ نہیں ہوتی جسے وہ اپنا سکیں، اس لیے وہ مجبوراً اپنے باس کی باتیں سنتے ہیں یا جیون ساتھی کے طعنے۔ دولت کا اصل فائدہ یہ نہیں کہ آپ مہنگی اشیا خرید سکتے ہیں بلکہ اس کا اصل فائدہ یہ ہے کہ آپ کو زندگی میں فیصلہ کرنے کی آزادی حاصل ہوجاتی ہے، اگر آپ کو یہ آزادی حاصل ہے تو سمجھ لیں کہ آپ سے زیادہ خوش قسمت روئے زمین پر کوئی نہیں۔ اسی طرح اگر آپ دنیا دیکھ سکتے ہیں، خرچے کی پروا کیے بغیر سفر کر سکتے ہیں تو یہ بھی خدا کی مہربانی ہے جس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اب آخری بات۔ دولت، صحت، آزادی، یہ سب باتیں اپنی جگہ ضروری ہیں لیکن ساتھ ہی پرسکون نیند بھی لازمی ہے، اگر کسی وجہ سے آپ کا ضمیر سونے نہیں دیتا یا آپ کو بے چینی اور ذہنی تناؤ کی وجہ سے نیند نہیں آتی تو پھر آپ کی خوش قسمتی کے نمبر کٹ جائیں گے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب کچھ ہی صفر ہو جائے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ زندگی میں یہ عیاشیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہیں کس حد تک ان کے حصول کے لیے جد و جہد کرنی چاہیے؟ مجھے یوں لگتا ہے کہ جس لمحے ہم اپنے حال کی خوشیوں کو مستقبل بعید میں ملنے والی کسی بڑی خوشی کی خاطر قربان کر دیتے ہیں تو پھر ہم ایسے گھن چکر میں پھنس جاتے ہیں جس سے نکلنا ممکن نہیں رہتا۔ ان آسائشوں کے حصول کے لیے تگ و دو ضرور کرنی چاہیے مگر لمحہ موجود کو عذاب میں ڈال کر نہیں کیونکہ وقت ایک ایسی عیاشی ہے جو نہ دولت سے خریدی جا سکتی ہے اور نہ کوئی شخص اسے واپس لانے کا اختیار رکھتا ہے۔ بقول اشفاق احمد موت ہم سے وقت ہی تو چھینتی ہے۔