نبی کریم ﷺ کی آمد سے قبل کی دنیا کیسی تھی؟ (حصہ دوئم) | سلیم زمان خان

دنیا کے تین قدیم ترین  تجارتی شاہراہیں

تجارتی راستے زمانہ قدیم سے پیداوار کے مقام سے کاروبار کی جگہ تک مال لے جانے کا وسیلہ رہے ہیں۔ کم یاب اجناس جو مخصوص علاقوں ہی میں دستیاب ہوتی تھیں، جیساکہ نمک اور مسالہ جات، نے تجارتی نیٹ ورکس کی تشکیل میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ لیکن جب یہ راستے تشکیل پا گئے تو ان سے ثقافتی تبادلے بھی ہوئے۔ مذہب، خیالات، علم اور بعض اوقات بیکٹیریا ایک سے دوسرے خطے تک پہنچے۔ اور یہ سب زمانہ قبل از مسیح ہے۔

 شاہراہ ریشم: شاہراہِ ریشم سب سے معروف قدیم تجارتی راستہ ہے جس نے چین اور روم جیسی اپنے وقت کی بڑی تہذیبوں کو ایک دوسرے سے جوڑا۔ چین سے سلطنت روم کو ریشم کی تجارت پہلی صدی قبل مسیح میں شروع ہوئی۔۔ لیکن شاہراہ ریشم پر تجارتی قافلوں کے ثبوت ایک ہزار سال قبل مسیح کے ملتے ہیں اور 4000 میل کا فاصلہ کسی ایک گروہ کے لیے طے کرنا ممکن نہ تھا اس لیے زیادہ تر ایک حصے تک سفر کرتے۔ خصوصا عرب علاقوں میں ان قافلوں کو محفوظ ترین راستہ ایک ساحل سے دوسرے ساحل تک یا دوسرے ملک تک دینا عربوں کی ذمہ داری تھی۔۔ اس لئے عرب قبل از مسیح بین الاقوامی تجارت کا حصہ تھے۔  بین الاقوامی تجارت کے اصول اور زبانوں اور خصوصا اجناس اور ان کے ممالک کا وسیع علم رکھتے۔ یعنی عرب کوئی جاہل قوم نہیں تھے بلکہ اعلی ہونے کا غرور، دولت اور  ایک دوسرے پر سبقت انہیں برسر پیکار  رکھتی۔

 گرم مسالوں کا راستہ یا  spice route : مسالوں کو مشرق سے مغرب تک پہنچانے والا راستہ سمندر سے ہو کر جاتا تھا۔ یورپ میں مرچ، لونگ، دار چینی اور جائفل کی بہت مانگ تھی۔ پندرہویں صدی میں مشرقی تجارتی راستوں پر شمالی افریقی اور عرب مڈل مینوں کا کنٹرول تھا، جس کی وجہ سے یہ مسالہ جات یورپ میں بہت کم یاب اور مہنگے تھے۔ پندرہویں سے سترہویں صدی تک جب مختلف خطوں کی دریافتوں کو عروج حاصل ہوا، اور بحری ٹیکنالوجی نے ترقی کی، تو طویل سفر کرنا نسبتاً آسان ہوا۔ اور اس علاقے پر بھی عربوں کا مکمل کنٹرول اور زمانہ قدیم سے حضور نبی کریمﷺ کی آمد کے بعد بھی عربوں کی اجارہ داری رہئ۔ یہی وجہ ہے کہ حبشہ جسے آج  سلطنت ایتھوپیا (Ethiopian Empire) کہتے ہیں۔جہاں مسلمانوں نے ھجرت کی ان سے قریش عرب قبائل  کے اچھے تعلقات تھے۔۔ جو عربوں کا نبی کریمﷺ کی بعثت سے قبل انٹرنیشنل تعلقات  کی نشاندہی کرتا ہے۔

بخُور راستہ: یہ راستہ بنیادی طور پر بخور (incense )  اور ایک خاص گوند کی تجارت کے لیے استعمال ہوتا تھا جس کی پیداوار صرف جزیرہ نما عرب کے جنوب میں (جہاں اب یمن اور اومان ہیں) میں ہوتی تھی۔ ان دونوں اشیا کو درختوں سے لیا جاتااور دھوپ میں سکھایا جاتا۔ انہیں مذہبی و ثقافتی تقریبات میں جلایا جاتا جس سے خوشبو پیدا ہوتی۔ اونٹوں کو انسان نے ایک ہزار قبل مسیح میں سدھا لیاتھا۔ اس کی وجہ سے عرب اس قابل ہوئے کہ وہ ان قیمتی اشیا کو بحیرہ روم تک لے جائیں جہاں اہم تجارتی مراکز قائم تھے۔ اس تجارت نے عربوں کو بے انتہا امیر اور دیگر تہذیبوں سے روشناس کرایا۔۔ تو جو علماء اور سیرت نگار عرب کو ایک جاہل اور کنوئیں کا مینڈک شمار کرنے کے درپے ہیں۔ انہیں عرب کی دنیا کی تجارت میں مقام اور ان کا بین الاقوامی کردار شائد ان کے علم میں نہیں۔

اگر یہاں تک پہنچ کر آپ اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ نبی کریمﷺ کی آمد سے قبل دنیا میں کیا کیا علوم اور ایجادات ہو چکی تھیں یا انسان کی ذہنی سطح کہاں تک پہنچ چکی تھی ۔ تو اب میں یہ بات بھی واضح کر دوں کہ اگر تزکیہ نفس نہ ہو تو دولت ،عزت شہرت کامیابیاں انسان اور متمدن ترقی یافتہ انسانی معاشروں میں نخوت، تکبر، طبقاتی ناہمواری اور سب سے بڑھ کر عیاشی اور فحاشی پیدا کرتی ہے۔ یہ دولت کی ریل پیل یہ آزادانہ تجارت ، یہ ذہنی بالیدگی نے ان قوموں کو جہاں عروج بخشا وہیں ان کی عیاشی نے انہیں دنیا کے لئے نشان عبرت بنا دیا۔آج انہی تہذیبوں اور سلطنتوں کے کھنڈرات ان کی شان وشوکت کے علاوہ ان کی نافرمانیوں کا نشان عبرت بھی ہیں۔یہ سب زہنی و جسمانی ترقی اور عروج و زوال اگر بنیادی اخلاقی ڈھانچے کو تباہ کر رہا ہو، تو پھر صرف نفس اور خواہش نفس رہ جاتی ہے۔۔ جس میں انسان اپنے پرائے کی تمیز اور اچھائی برائی کا معیار کھو بیٹھتا ہے۔۔ لہذا دنیا ایک نفس کی پیروی کرنے والی آبادی بنتی جا رہی تھی ۔ یہ وقت  ایک ایسے ہادی اعظم کی ضرورت محسوس کر رہا تھا ۔ جو تمام تر ترقی کے باجود تزکیہ نفس کرے اور اخلاق کا ایک بین الاقوامی معیار تشکیل دے سکے ۔ اور دنیا کو رحمت اور شفقت کا مرہم فراہم کر سکے

لہذا ارشاد ربانی ہے۔ ترجمہ:اور بیشک تم یقینا عظیم اخلاق پر ہو ۔

 اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا۔ترجمہ: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔

آج سے ایک صدی قبل “جہاں ” یا عالم کی تعریف مختلف تھی۔یعنی نباتات کا جہاں،پتھر کا جہاں۔ لیکن آج ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ہماری مادی کائنات اور اس میں پیدا ہونے والی ہر چیز چونکہ مادہ matter سے تخلیق شدہ ہے تو یہ 15 ارب نوری سال پر پھیلی کائنات،انسان اور زمین میں موجود سب کچھ مادے کا جہاں ہے۔ نامعلوم اس کے علاوہ اور کتنے جہاں ہوں کے جن سے ملنے نبی کریمﷺ معراج کی رات تشریف لے گئے۔ فرشتوں کا جہاں،جنت اور جہنم کا جہاں، وقت کا جہاں جو عالم بالا اور عرش سے شروع ہوتا ہے اور روز قیامت تک ہر چیز پر محیط ہ۔۔ اور نبی کریمﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے لئے نبوت کب واجب ہوئی؟ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا) جبکہ حضرت آدم کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی (یعنی روح اور جسم کاباہمی تعلق بھی ابھی قائم نہ ہوا تھا)۔‘‘ ترمذی۔ خدا جانے آقا کریمﷺ اس وقت کس جہاں یا عالم پر اپنی رحمت نچھاور فرما رہے ہوں گے۔

آج سے 1500 سال قبل ہمارے نبی کریمﷺ ہمارے اس جہاں میں تشریف لائے تاکہ اس کو تاقیامت روحانی اور غیر مادی ترقی کافارمولا دے جائیں ۔۔ جتنی روح بالیدگی اختیار کرے گی اتنا ہی جسم صلاحیتوں سے بھر پور ہو گا۔کہتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کی عمر مبارک 1080،1700،یا 2500 سال تھی۔آپ کی عمر مبارک کو میں اسی لئے زمانہ قبل از تاریخ کہتا ہوں کہ اس دور کے شواہد موجود نہیں اور آپ کی عمر مبارک کا تعین کا کوئی مستند زریعہ نہیں ہے۔ چونکہ طوفان نوح سے قبل آپ نے صرف تبلیغ ہی 950 سال فرمائی۔ 

 اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاترجمہ:  اور ہم نے نوحؑ کو اُن کی قوم کی طرف بھیجا، تو وہ اُن میں پچاس برس کم ہزار برس رہے۔(العنکبوت)

اگر حضرت نوح علیہ السلام کی عمر مبارک 1700 سال تصور کر لی جائے۔ اور اب اگر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ کریم اتنی ہی عمر عطا فرماتے تو آج 2021 میں ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  موجود ہوتے بلکہ مزید دو سو سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں ہوتے ۔ 1400 سال زمین کی تاریخ کا وہ قریب ترین اور جدید ترین زمانہ ہے جس کی تمام جزئیات آج بھی محفوظ ہیں۔ اپنے مضمون کے اختتام سے قبل میں bullets کی شکل میں آپ کو ایک مرتبہ پھر زمانے کی تاریخ یاد کرا دوں اسے سامنے رکھ کر پھر اپنی شان والے نبی کریمﷺ کی آمد کا زمانہ سوچیں تو یہ آپ کو کل کی بات لگے گی۔ 

 انسان نے آج سے چالیس ہزار سال قبل پوشاک سلائی کر کے پہنا شروع کی۔ اور کپڑے کی بنائی اور اون کی بنائی سے پوشاک تیار کرنا آج سے 27 ہزار سال قبل شروع کیا

انسان نے زراعت بحثیت صنعت و تجارت آج سے 13 ہزار سال قبل شروع کر دیا تھا جسے زراعت کا انقلاب کہا جاتا ہے

 سلائی کیا ہوا لینن  کا کپڑا آج سے 5500 سال پہلے عام استعمال میں تھا اور رنگوں اور رنگوں سے  ڈرائنگ کا استعمال پہلی مرتبہ آج سے 36 ہزار سال قبل  شروع ہو چکا تھا۔

 قدیم ترین 4 تہذیبیں آج سے 6 سے 8 ہزار سال قبل پوری آب وتاب سے دنیا میں اپنا حصہ اور انجینئرنگ کے جوہر دکھا رہی تھیں۔

 اہرام مصر 6 ہزار سال قبل بن چکے تھے۔پختہ رنگوں کا استعمال عام تھا۔۔ کاغذ کی ایجاد ہو چکی تھی۔

 سنہ 2007 میں اردن کے قدیم شہر پیٹرا کو ’دنیا کے سات نئے عجائب‘ میں شامل کیا گیا تھا، تیزی سے لرزنے والے رنگ سرخ ، سفید ، گلابی ، اور ریت کے پتھروں کے چٹانوں پر بنی ہوئی نقش و نگار والا اردن کا ایک قبل از تاریخ شہر “پیٹرا” ہے۔یہ اردن کی ہاشم مملکت کے جنوب مغربی کونے میں اب تک ناہموار صحرائی گھاٹیوں اور پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔پیٹرا ایک زمانے میں ایک ترقی پزیر تجارتی مرکز تھا اور 400 بی-سی(قبل از مسیح) اور 106 سن عیسوی کے درمیان نباطینی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ 9 ہزار قبل مسیح بننا شروع ہوا۔۔ یہ چٹانوں اور پہاڑوں کو کاٹ کر بنایا گیا ہے۔۔ عرب سرزمین پر ہے۔ انجنیرنگ کی شان ہے۔۔ اس پر عذاب کا قران میں زکر ہے۔ 

 آج سے 5 ہزار سال قبل ناپ تول کے پیمانے، ذخیرہ کرنے کے بڑے گودام ،پل اور لکھائی کا کام عروج پر تھا۔

 حضرت موسی علیہ السلام  سے ایک ہزار سال قبل داستان گلگامیش  لکھی جا چکی تھی۔ 

 حضرت موسی علیہ السلام  کو تختیوں پر لکھی آسمانی کتاب تورات آج سے 3 ہزار سال قبل مل چکی تھی۔

 اج سے 3 ہزار سال قبل یونان کا فلسفہ، تھیٹر اور سیاست وجمہوریت اور اولمپکس کا آغاز ہو چکا تھا۔ 

 آج سے 2500 سال قبل لوہا دنیا میں ایک صنعت کی صورت عام ہو چکا تھا۔ 

 آج سے 25 سو سال قبل کوٹلیہ چانکیہ  نے ہندوستان کے بادشاہ کے لئے مشہور زمانہ کتاب “ارتھ شاستر ” لکھ دی تھی جو اپنی تمام تحریفات کے ساتھ آج بھی مشہور زمانہ امور سلطنت کی کتاب ہے۔  اسی طرح آج سے 26 سو سال قبل چین میں  Sun Tzu کی کتاب  The Art of War چھپ چکی تھی جو آج بھی چین میں معتبر ہے۔ 

 جولیس سیزر نے آج کا موجودہ عیسوی کلینڈر کی ابتدائی شکل حضرت عیسی علیہ السلام  کی پیدائش سے 50 سال قبل تیار کر لیا تھا۔ 

حضرت عیسی علیہ السلام  اپنے تمام میڈیکل معجزات اور بائبل کے ہمراہ آج سے 2 ہزار سال قبل تشریف لا چکے تھے۔ 

عرب تجارت میں بین الاقوامی سطح پر اپنا سکہ منوا چکے تھے۔

اور پھر آج سے 1500 سال قبل اللہ کی مخلوقات کے تاج اور رب العزت کا محبوب اس زمیں پر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر لاتعداد درود  و سلام۔

اس تمام ارتقائی ٹائم لائین اور قوموں  اور تہذیبوں کی ترقی اور دنیا کی بالیدگی کے جواب میں نبی کریمﷺ نے قران کو پیش کر دیا اور بتا دیا کہ یہ شفا اور کامیابی  ہے تاقیامت۔۔۔۔

ترجمہ: یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لیے تو سراسر شفاء ہےاور رحمت ہے اور ظالموں کا تو اس سے نقصان ہی بڑھتا ہے۔”(سورۃ بنی اسرائیل)

ترجمہ: اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد خدا وندی ہے کہ۔اے لوگو! تمھارے پاستمھارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لیے شفاء ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور ایمان والوں کے لیے رحمت ہے۔”(یونس )

اور آپ نے نہائت سادگی اور عاجزی سے ارشاد فرمایا کہ ” مجھے اللہ نے قران بطور معجزہ عطا فرمایا ہے” اور اس معجزے کی تاقیامت  حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ کریم نے لی ہے۔۔ چاہے الہامی کتب ہوں یا غیر الہامی کتب تحریف سے نہی بچ سکیں۔۔ لیکن نبی کریمﷺ کا معجزہ تاقیامت اللہ کی جانب سے خصوصی  حفاظت میں ہے۔ترجمہ: ہم نے یہ ذکر (قرآن مجید)نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں”۔ (سورۃ الحجر)

نبی کریمﷺ کی بعثت کا مقصد  4 افعال قران مجید نے ارشاد فرمائے۔ ترجمہ: وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور ان کا تزکیہ نفس کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتاہے اور بیشک وہ اس سے پہلے ضرور کھلی گمراہی میں تھے۔

آپ نے کریمﷺ نے 23 سال اپنے غلاموں کا تزکیہ نفس فرمایا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کیا سکندر اعظم کی سلطنت تھی جو اس نے 20 سال لگا کر بنائی تھی۔ اور دربدر ہر جگہ لڑنے کو گیا۔ اور کیا نبی کریمﷺ کے غلاموں کی حکومت جو حضرت عمر نے 6 سال سے کم عرصے میں 22 لاکھ مربع میل پر محیط تھی۔ اور حضرت عمر اپنے امور خلافت انجام دیتے رہے  اور غلام فتح کر کے انہیں مطلع کرتے رہے۔۔ اور اس حد تک ایماندار کہ مال غنیمت میں لی ہوئی اونٹ کے گلے کی رسی تک روم اور فارس سے لا کر بیت المال میں جمع کرا دی جاتی۔فقر کا یہ عالم کہ ایک کپڑوں کا جوڑا جسے دھونے اور صاف کرنے کے دن لوگوں سے نہ ملا جاتا کہ دوسرا جوڑا موجود نہیں تھا۔

• فزکس ،کیمسٹری، بیالوجی ،علم الادویات، علم الفلکیات میں وہ کارنامے انجام دئے کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ ہماری کہکشاں کی ساتھی کہکشاں جو اینڈور میڈا  کہلاتی ہے ۔ اس اینڈرومیڈا کہکشاں کو آج سے ساڑھے گیارہ سو سال قبل ایک سائنسدان  جسے یورپ اور جدید دنیا “Azophi” کے نام سے جانتی ہے، نے سب سے پہلے دریافت کیا۔ اور اپنی کتاب book of fixed stars میں اس کو اس کے صحیح محل وقوع کے ساتھ درج کیا، چونکہ اسے شروع میں  ایک گیس اور ستاروں کا بادل سمجھا گیا لہذا اسے اس کے برج کی مناسبت سے  یونان کی دیوئ the chaind women “المرتہ المسلسلہ” کا نام دیا ۔ اس دریافت کے کم وبیش ایک ہزار سال کے بعد اس کو کہکشاں مانا گیا ۔ اور اسے یونانی دیوی اینڈرومیڈا کا نام دیا گیا۔ لیکن یورپ اور astrology کےتمام عظیم سائنسدان آج بھی اینڈرومیڈا کی دریافت کا سہرا اسی  عظیم سائنسدان Azophi کے سر باندھتے ہیں۔۔  دنیا کے سائنسدانوں نے جب چاند پر اپنی کھوج کا آغاز کیا تو چاند پر موجود ایک بڑے گڑھے یا پہاڑی سطح جو تقریبا 26 میل قطر کا ہے یا 47 کلومیٹر بنتا ہے کی دریافت پر 1935 میں اس گڑھے کا نام بھی اسی سائنسدان کے نام پرlunar crater Azophi رکھا۔ 1960 میں ایک خلائی سروئے کے دوران  نظام شمسی کے گرد ایک اور  سیارہ  دریافت ہوا جس کا  نام  Azophi12621 رکھا گیا ہے. یہ Azophi جن  کا اصل نام عبدالرحمان تھا وہ اپنے نام کے ساتھ “صوفی” اس لئے لگاتے تھے کہ ان کا تعلق مسلم صوفی خانوادہ سے تھا ۔۔ حضور نبی کریمﷺ کے ایک ادنی غلام تھی جو نویں صدی عیسوی میں پیدا ہوا ۔۔ یورپ چونکہ صوفی کا تلفظ ادا نہی کر سکتا تھا اس لئے انہیں Azophi کے نام سے آج تک یاد کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سوشیالوجی جسے عمرانیات کہا جاتا ہے اس علم کی بنیاد ابن خلدون  نے رکھی ۔۔ جو ایک سچا مسلمان تھا۔۔ اور سوشیالوجی کو آج کے دنیا کی معاشرت میں کیا مقام حاصل ہے کسی سے ڈھکی چھپی  بات نہیں۔آج کی نئی دنیا تشکیل دینے کے لئے  ضروری ہوگا کہ مصنوعی ذہانت ، Artificial intelligence ،بگ ڈیٹا ایلگورتھم Algorithm  اور بائیو انجنئیرنگ کی سمجھ بوجھ حاصل کرے”  اور کہا جا رہا ہے کہ 2050 تک Artificial intelligence  پر پوری طرح Algorithm  قابو پا لے گا اور مستقبل کی دنیا الگورتھم کی ہو گی ۔۔ یہ الگورتھم کس کی ایجاد ہے؟

سرسری طور پر دیکھنے یا سننے سے لگتا ہے کہ لفظ الگورتھم کوئی جدید اصطلاح ہے لیکن اصل میں یہ لفظ لگ بھگ 900 سال پرانا ہے۔ یہ لفظ فارسی ریاضی دان محمد ابن موسیٰ الخوارزمی کے نام سے نکلا ہے۔

 انھوں نے ریاضی، علم فلکیات، جغرافیہ اور کارٹوگرافی یا نقشہ نگاری کی ترقی میں بہت نمایاں کردار ادا کیا۔ انھوں نے کئی مشہور کتابیں لکھیں جیسا کہ ’کنسرنگ دی ہندو آرٹ آف ریکننگ‘ یا ’کتاب الحساب الہندی‘۔ اعشاری نظام پر لکھی گئی وہ پہلی کتاب تھی جس کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ اس کتاب میں حساب سے متعلق مختلف ہدایات بتائی گئی ہیں اور یہیں سے لفظ *ایلگورتھم* کی اصطلاح وجود میں آئی جو دراصل الخوارزمی کو لاطینی میں بولنے کا طریقہ ہے۔الخوارزمی لاطینی میں لکھا گیا تو اسے *”الگورتھمی”* لکھا گیا۔ اور یہاں سے الگورتھم کا لفظ ریاضی میں استعمال ہونا شروع ہوا۔

 آج بھی اگر حقیقی معنوں میں نبی کریمﷺ کا اتباع اور قران کو مشعل راہ بنایا جائے تو مسلمان جو سب سے زیادہ جدید اور روشن مذہب کے حامل ہیں دنیا ان کے قدموں میں ہو گی۔۔ اس مضمون میں میری یہ کوشش رہی ہے کہ دنیا کی ترقی اور تہذیبوں اور تمدن اور عروج و زوال کو سامنے رکھا جائے۔۔ اور بتایا جائے کہ دنیا کی اتنی ترقی کے مقابلے میں اگر ہمارے آقا کریمﷺ صرف قران کا معجزہ اور اپنی سیرت پاک کا معجزہ لے کر آئے ہیں تو یہ دونوں نعمتیں تا قیامت ہمیں عروج عطا کریں گی بشرط کہ اتباع نبی کریمﷺ زندگی کا نصب العین ہو۔۔اور آج کے نوجوان کو اسلام اور نبی کریمﷺ کا ایسا تعارف کرانا ہے جس کو پڑھ کر بحثیت مسلمان اقوام عالم کا چیلنج قبول کرسکیں۔  ناکہ اپنے دین کو چند مخصوص عبادات کا مجموعہ سمجھتے ہوئے مشکلات کے آنے پر جادو تعویذ اور خودکشیوں کا سہارا لیں۔۔ اور ایک دوسرے کو طعنہ دیں کہ 1400 سال پرانے اور آج کے انداز فکر میں بہت فرق ہے۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں