نبی کریم ﷺ کی آمد سے قبل کی دنیا کیسی تھی؟ | سلیم زمان خان

“ایک تحقیقی مقالہ جو سیرت النبیﷺ کے مطالعہ کا ایک نیا زاویہ نظر فراہم کرتے ہوئے،قاری کو ایک نئے اور وسیع تناظر میں سوچنے پر مجبور کر دے گا”

رحمتہ العالمین ﷺ کی آمد کا موازنہ صرف عرب معاشرہ اور تمدن   سے کرنا  یہ انتہائی ظلم و ناانصافی ہے۔

اگر میں آپ سے سوال کروں کہ نبی کریمﷺ کی آمد سے پہلے دنیا کے کیا حالات تھے تو کم بیش ایک جیسا جواب 95 فیصد مسلمان دیں گے کہ سائد کچھ ترقی پسند مسلمان یہ موازنہ دنیا سے کچھ یوں کریں کہ

پیغمبراسلام کی بعثت سے قبل انسانیت حکمرانوں کے ظلم وتشدد سےکراہ رہی تھی۔اس مظلوم دنیا نے کیا کیا مظالم سہے اور کیسی کیسی روشیں اختیار کیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔۔دنیا ایک مست ہاتھی کی طرح ہو گئی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ انسانیت اب تباہ ہوکر رہے گی۔ انسان اپنی خواہشات کے آگے مجبور تھا ، رسم و رواج کی غلامی سے نکلنا اس کے لئے دشوار تھا۔۔

دنیا کے تمام مذاہب اپنی اصلی شکل کھوچکے تھے! یہودیت کچھ بے جان رسموں کا مجموعہ تھا۔جس میں زندگی کی کوئی رمک باقی نہ تھی۔۔روم کے نصرانیوں کی بت پرستی اس کے خون میں گھل گئی تھی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات اسی مشرک کے ملبے تلے دبی ہوئی تھی۔  

لیکن اکثریت یہی کہے گی کہ

•اسلام سے پہلے اہل عرب شرک اور بت پرستی میں مبتلا تھے۔ اس وقت عرب میں کوئی مرکزی حکومت نہ تھی۔ مختلف قبائل کے اپنے اپنے سردار تھے جو اکثر کسی بادشاہ کے تابع تھے۔ قبیلے کا سردار وہی ہو سکتا تھا جس کے حامی افراد زیادہ ہوں اوراہل عرب کی قومی خصوصیات بہادری، مہمان نوازی اورفیاضی میں بھی ممتاز ہو۔

جزیرہ عرب کے باشندوں کی اکثریت بت پرست تھی۔ بیت اللہ شریف میں جسے حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمعیل ؑ نے ایک خدا کی عبادت کے لیے تعمیر کیا تھا 360بت رکھے ہوئے تھے۔

•ظہور اسلام کے وقت جزیرہ عرب میں مروجہ طرز کا کوئی باقاعدہ نظام حکومت موجود نہ تھا جھگڑوں کے فیصلے کے لیے کوئی عدالت نہ تھی۔ امن قائم رکھنے کے لیے پولیس کا محکمہ نہ تھا اور بیرونی حملوں کی روک تھام کے لیے کوئی فوج بھی نہ تھی۔عربوں کے ہاں اپنا کوئی سکہ اور ٹکسال بھی موجود نہ تھا۔ 

•مرد ایک یا بہت سی عورتوں کا مالک ہوتا۔ بعولت (خاوند ہونا) سے مراد مرد کا ’’عورتیں جمع کرنا’‘ ہوتا تھا۔ اس میں عورت کی حیثیت عام مال و متاع جیسی ہوتی۔ شراب نوشی پر فخر کرتے تھے۔ عربوں میں معمولی سی باتوں پر چالیس چالیس سال تک جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔

بیٹیوں کوزند ہ در گور کرنا انکی قبائلی تہذیب کا حصہ تھا ۔محققین کے مطابق لڑکیوں کا زندہ در گور کردینے کی رسم اس لئے عام تھی کیونکہ عرب کا سرمایہ دار طبقہ فقر و تنگ دستی سے ہمیشہ خوف زد ہ رہتا تھا۔۔ اس کے بعد اکثر سیرت نگار اور مصنفین لگی بندی چند باتیں لکھتے ہیں جس کا مرکز بھی نبی کریمﷺ کی بعثت کو عرب کے لئے مخصوص کرنا ہوتا ہے۔۔مثلا 

1۔۔اس ماحول میں آپ ﷺ کی بعثت ہوئی اور کس طرح اسلام نے ان عرب بدوؤں کو یکسر تبدیل کر رکھ دیا۔

2۔۔عرب معاشرے میں شراب خوری، قمار بازی، دختر کشی اور معمولی جھگڑے پر مسلسل لڑائی جیسی عادات موجود تھیں۔اسلام کے تجارتی پہلو ؤں کا جائزہ لینے کے لئے ضروری ہے کہ اسلام سے پہلے موجود اقتصادی حالات کا جائزہ لیا جائے تاکہ معلوم ہوکہ عرب معاشرہ کے معاشی نظام میں کون سی خرابیاں تھیں جن کی آپ ﷺ نے اصلاح فرمائی اور وہ کون سی چیزیں تھیں جن کو آپ ﷺ نے برقرار رکھا۔۔۔

اب آپ اس سے اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن ہم نے بچپن سے سیرت النبی کریمﷺ کا تعارف اسی طرح پڑھا یا لکھا  ہے۔۔۔ 

لیکن میں اس سب سے اتفاق اس لئے نہیں کرتا کیوں کہ۔۔

 اللہ کریم نے آپ ﷺ کو جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا صرف جزیرہ نما عرب کے لئے نہیں۔۔ اور آپ کی آمد کے بعد گزشتہ تمام شریعتیں منسوخ ہو گئیں۔۔ آپ ﷺ تو گزشتہ علم و ترقی کو مزید ترقی دینے تشریف لائے، اسی لئےآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے غلاموں کو اللہ کریم نے وہ عزت بخشی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ 22 لاکھ مربع میل کے حکمران بنے۔۔ اور کئی سو سال بعد حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس سے جب سلطان الہند کی بشارت نصیب ہوئی تو آپ سیدھا اجمیر شریف تشریف لے آئے اور اس وقت کے بادشاہ  پرتھوی راج سے ٹکر لی اور اسلام کی تعلیمات کا پرچار شروع فرمایا۔۔ اور جب اسے سمجھ نہی آئی تو شہاب الدین غوری کوھصرت معین الدین  نے حکم فرمایا کہ پرتھوی سے جنگ کرے اور اس طرح پرتھوی راج کے دور کا اختتام ہوا۔۔ ہر حالت میں ہندوستان جزیرہ نما عرب سے بڑا اور منظم تھا جہاں ایک ولی اللہ نے نبی کریمﷺ کی بشارت کے کرم سے اپنا جھنڈا گاڑا۔۔ تو بعثت نبوی کی مقصدیت میں صرف عرب معاشرے کے حالات اور باقی دنیا کے معاشروں کے افعال قبیح کا زکر کرنا اور پوری دنیا کو اندھیرا ہی اندھیرا اور جہالت کا گڑھ بناکر پیش کرنا شائد قرآن کا معجزہ ہونے اور نبی کریمﷺ کے رحمت العالمین  ہونے سے انحراف کرنا ہو سکتا ہے۔۔ 

جان دی دی ہوئی اسی کی تھی 

حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا

آج میں آپ کے سامنے ایک اور زاویہ نظر پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں تاکہ یہ بات ذہن نشین ہو سکے کہ کیوں نبی کریمﷺ نے قران ہی کو اپنا معجزہ قرار فرمایا۔۔ زمین پر وقت اور حالات کی کیا تبدیلیاں تھیں کہ مالک کریم نے اپنے نبی کریمﷺ کو کتابی شکل میں ایسا معجزہ عطا فرمایا جو تا قیامت محفوظ اور مامون رہے گا۔۔

اس سب کو سمجھنے کے لئے ہمیں  دنیا کی 15000* سالہ ٹائم لائین پر ایک اجمالی نظر ڈالنی ہو گی میں پندرہ ہزار اس لئے کہہ رہا ہوں چونکہ یہ وہ دور ہے جب زراعت کا انقلاب شروع ہو چکا تھایہ انقلاب کی تاریخ ہے ناکہ انسان کی۔۔۔ ۔ ان ادوار کے مطالعہ سے ہم اس نتیجہ پر پہنچ سکیں گے کہ آپﷺ کی آمد سے قبل دنیا علم و ادب،ترقی سائنس حتکہ عیاشی میں کس مقام پر کھڑی تھی۔۔

 یہ قران مجید کا اعجاز ہے کہ وہ انسانی تاریخ میں ہونے والے major events پر بات کرتا ہے اور وقت کی جستجو انسانی علم پر چھوڑتا ہے۔۔ کیونکہ دور اور صحیح وقت کا تعین علم اور کھوج کی صورت ہی میں ہو سکتا ہے۔۔

• زمانہ قبل از تاریخ۔۔۔ میری دانست میں یہ دور حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت نوح علیہ السلام  تک کا ہے۔۔ کیونکہ اس دور کی تاریخ کو جاننے کا واحد زریعہ صرف یہودی یا عیسائی کہانیاں ہیں ۔ اور ان کی ٹائم لائین کے مطابق آدم علیہ السلام کو آئے  ہوئے ابھی صرف دس ہزار سال ہوئے ہین۔ جبکہ انہی کی سائنس اس ٹائم لائین کو جھٹلا چکی ہے۔۔ یہودیت اور عیسائیت آج بھی آدم علیہ السلام  اور ان کی زوجہ کی برہنہ تصاویر بناتے ہیں۔۔ اور انہیں گناہ کی پاداش میں زمین پر بھیجے جانے کا واویلا کرتے نظر آتے ہین۔۔ جبکہ قرآن مجید صاف الفاظ میں ان کی معافی اور آدم علیہ السلام  بطور پہلا نبی زمین پر خلیفہ بنا کر بھیجنے کا زکر فرماتا ہے۔۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں آدم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا :

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً

’’ اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا: ’’ میں بلاشبہ زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ “ -البقرة۔

تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس آدم علیہ السلام نے اپنے علم سے فرشتوں کو شکست دی ہو،زمین پر خلیفہ اور نبی کی صورت آئے ہوں اور ان کو کپڑوں کا علم نہ ہو ۔ جبکہ جنت میں وہ جنت کی پوشاک پہنتے ہوں۔۔ تو پہلی بات تو یہ ہے کہ انسان زمین پر بے سرو پا اور بے سروسامان نہیں بھیجا گیا بلکہ بطور خلیفہ بھیجا گیا ہے۔۔ لہذا کپڑے پہنے اور خاندان کے ساتھ رہنے کا علم وہ جنت سے لے کر آیا تھا۔ اور اپنے علم سے فرشتوں کو مرعوب کر کے آیا تھا ۔ فرشتوں نے سجدہ کر کے آپ کے علم کے اگے اپنی شکست قبول کی۔تو پہلا بندہ ایک وقت میں فرشتوں سے افضل،نبی اور خلیفہ اول ہو انسانی ارتقائی تھیوری کچھ بدل جائے گی۔۔

یہود کی کتب سے اسرائیلی روایات نے کم فہم اور کج رو طبقہ فکر کے لوگوں کو اسی بات پر سوچنے پر مجبور کیا کہ آدم علیہ السلام  بے سر وسامان دنیا میں گناہ کی پاداش میں پھینک دئے گئے۔۔ اور آج بھی مذہبی طبقہ اسی یہودیت اور عیسائیت کی ٹائم لائین کو استعمال کرتے ہوئے اس واقعہ کو زیادہ سے زیادہ 10 ہزار سال پرانا گردانتا ہے۔۔ اسی لئے سائنس سے تعلق رکھنے والا طبقہ دین سے متنفر اور دور ہوتا جا رہا ہے۔۔ کیونکہ سائنس کی تلاش اور تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ انسان نے سلائی کی ہوئی پوشاک کا استعمال آج سے 40 ہزار سال قبل شروع کر دیا تھا اور گزشتہ 27 ہزار سال سے کپڑا بنا weaving جا رہا ہے  دنیا کی سب سے مکمل سلائی کی ہوئی اور انسانی ہاتھوں سے بنی ہوئی قمیض جو اپنی اصل حالت میں ہے۔۔ آج سے 5500 سال قبل ملی ہے جسے Tarkhan dress کہتے ہیں۔۔

  لیکن ہم  اور ہمارا مذہبی طبقہ بضد ہیں اور جس آدم علیہ السلام  کو آج سے 10 ہزار سال قبل بطور نائب خداوند زمیں پر تعارف کرا رہے ہیں وہ یا تو برہنہ ہے اور یا درخت کی چھال باندھے ہوئے ہیں۔اس سے بھی زیادہ ظلم ہمارے مذہبی طبقہ نے کیا ہے جو عرب کو آج سے 14 سو سال قبل دھوتی ،ایک چادر میں اور ان سلے کپڑوں میں متعارف کراتا ہے۔۔ حالانکہ نبی کریمﷺ کی آمد کے بعد وہاں کے امراء نے بھی فقر اختیار کیا اور دنیاوی عیش کو ترک کر دیا۔۔ ایسا نہیں کہ وہاں عمدہ پوشاک دستیاب نہیں تھیں۔ نبی کریمﷺسے  1000 سال قبل چندر گپت موریہ جو  موریہ سلطنت ہندوستان کا بادشاہ تھا ۔ ململ کے کپڑوں پر سونے کی تارکشی کی ہوئی پوشاک پہنا کرتا تھا۔

 اسی طرح حضرت مصعب بن عمیر)صحابی رسولﷺ) ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی پرورش ناز و نعم میں ہوئی تھی۔ اعلیٰ قسم کا لباس زیب تن فرماتے تھے اور سب سے زیادہ قیمتی خوشبو استعمال فرماتے۔ جس گلی سے گزر جاتے دیر تک اس گلی سے آپ کے پرفیوم کی خوشبو آتی۔ چنانچہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مکہ میں مصعب سے زیادہ کوئی حسین، خوش پوش اور نازونعم میں پَلا ہوانہیں۔ لیکن جب اسلام قبول کیا تو ایسا ابتلا آیا کہ ہر طرح کی آسائش اور کشائش جاتی رہی اور تکلفات سے بے بہر ہو گئے۔ یہاں تک ایک بار جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو جسم بھی پوری طرح ڈھکا ہوا نہیں تھا۔ اور صرف کھال کا ایک ٹکڑا زیب تن تھا۔ جس پر بھی کئی پیوند لگے ہوئے تھے۔ 

اسی طرح ہم شلوار کو آج ٹخنوں تک اوپر کرتے ہیں اور اسے سنت کہا جاتا ہے۔۔ جس سے یہ مراد لی جاسکتی ہے کہ حضور نبی کریمﷺ کے دور میں سلائی کی ہوئی شلوار پہنے کا رواج تھا۔ 

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹک جانے پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو ٹخنوں سے اوپر کرنے کے لیے نہیں فرمایا بلکہ آپ کے پوچھنے پر آقا علیہ والصلوۃ والسلام نے فرمایا یہ آپ کے لیے نہیں۔ پس معلوم ہوا کہ اصل وجہ غرور و تکبر ہے۔

•اسی طرح دنیا کو سب سے پہلے کارگو شپ یعنی سامان کی ترسیل کرنے والے بحری جہاز حضرت نوح علیہ السلام  نے دیا۔۔ جن کا زمانہ کم وبیش 10 ہزار سال قبل از مسیح ہے ( یہ بھی بائبل کی ٹائم لائن ہےجبکہ شواہد اس سے بہت قدیم زمانے کی نشاندہیکرتے ہیں)۔۔ معلوم ہوا کہ انسان کم وبیش 10 ہزار سال سے تو کارگو شپ یا جہازرانی کا تجربہ رکھتا ہے۔ 

 دنیا میں تہذیبوں کا بننا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام۔۔۔

تقریبا حضرت عیسی علیہ السلام  کی پیدائش سے 5 ہزار سال قبل دنیا کی 4 بڑی تہذیبوں ( میسوپوٹیمیہ جو دریائے دجلہ و فرات کے درمیان واقعہ تھی ، مصری تہزیب جو دریائے نیل کے ساتھ تھی،انڈس (وادیٔ سندھ کی تہذیب جو دریائے سندھ کے ساتھ تھی) اور چینی تہذیب جسے yellow River  civilization کہتے ہیں) زرعی انقلاب کی وجہ سے وجود میں آئیں اور لگ بھگ  حضرت عیسی علیہ السلام  کی پیدائش سے 3 ہزار سال قبل ان تہذیبوں میں سلطنتوں کا رواج پروان چڑھا اور چھوٹی چھوٹی بادشاہتوں کو ایک سلطنت میں ضم کر کے بڑی سلطنتوں کا وجود ہوا۔۔

•میسوپوٹیمیا‘‘ جس کا موجودہ نام عراق ہے، دنیا کا قدیم ترین تاریخی، ثقافتی اور تہذیبی پس منظر رکھنے والا مُلک ہے۔اس خطّے کو یہ نام یونانیوں نے دیا۔ یونانی زبان میں اِس کا مطلب ’’دریائوں کے درمیان‘‘ ہے۔ چوں کہ یہ تہذیب دریائے دجلہ اور فرات کے درمیان پروان چڑھی، اِس لیے اسے ’’میسوپوٹیمیا‘‘ کا نام دیا گیا۔۔  حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں پہلی مرتبہ بادشاہ کا زکر ہے۔۔سورہ البقرہ میں ارشاد ہے۔۔

ترجمہ:کیا نہ دیکھا تو نے اس شخص کو جس نے جھگڑا کیا ابراہیم سے اس کے رب کی بابت اسی وجہ سے کہ دی تھی اللہ نے اس کو سلطنت جب کہا ابراہیم نے میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے وہ بولا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں کہا ابراہیم نے کہ بیشک اللہ تو لاتا ہے سورج کو مشرق سے اب تو لے آ اس کو مغرب کی طرف سے تب حیران رہ گیا وہ کافر اور اللہ سیدھی راہ نہیں دکھاتا بے انصافوں کو

 اس بادشاہت دنیا کو سب سے پہلی بادشاہت “اکاد” Akkadian Empire کہا جاتا ہے۔۔ اس کی بنیاد بادشاہ sargon نے رکھی۔۔ غالب امکان ہے کہ یہی دور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بھی ہے۔ یہ سلطنت اپنی زراعت اور باغبانی کی وجہ سے مشہور تھی۔۔مگر اس سلطنت کے زوال کی چند نشانیاں ہیں جو ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ یہی تاریخی دور ہے جب حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کو شہاب ثاقب کے زریعے عذاب دیا گیا۔۔ اور اس زلزلہ اور شہاب ثاقب کی بارش کے نتیجے میں اس علاقے میں دریاوں کا پانی خشک ہوا اور قحط کی صورت حال پیدا ہو گئی۔۔ جس کی بدولت اس سلطنت میں شکست و ریخت پیدا ہو گئی اردگرد کے  قبائل نے چڑھائی شروع کر دی لیکن اس اکڈین سلطنت نے اپنے معقول انتظامات کے زریعے قحط اور حملہ آوروں سے احسن طریقے سے نبٹا۔ انہوں نے سب سے پہلے قلعہ بند شہر بنائے۔۔ اناج کے گودام کی بنیاد رکھی ۔۔ ایسے پل بنائےجو ضرورت کے وقت اور دشمن کے حملے کے وقت اکھاڑ لئے جاتے تاکہ حملہ آوروں کو روکا جا سکے ۔۔اور اس قحط سالی نے اس سلطنت کے بادشاہ کو کچھ اس طرح سے مضبوط کیا کہ انہوں نے سب سے پہلے اشیاء گروی رکھ کر اور رقم لے کر اپنے گوداموں سے غلہ قحط زدہ اقوام کو دینا شروع کیا ان کی تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ سب سے پہلے ناپ تول کا نظام اور غلہ دینے کا ایک پیمانہ مقرر کیا اور اسے مکمل طاقتور بادشاہ تصور کیا گیا جو اکیڈین بادشاہوں میں سب سے طاقتور تھا۔۔۔ اگر آپ قرآن مجید میں سورہ یوسف کا مطالعہ کریں تو ناپ تول کا پیمانہ ان کی ایجاد ہے۔اور طاقتور ترین کو جو لوگوں پر مکمل تصرف رکھےعربی میں “رب ” کہتے ہیں جو اس بادشاہ کا لقب تھا۔۔ جس کا اشارہ سورہ یوسف میں موجود ہے۔

 ترجمہ: جواب دیا کہ شاہی پیمانہ گم ہے جو اسے لے آئے اسے ایک اونٹ کے بوجھ کا غلہ ملے گا۔ اس وعدے کا میں ضامن ہوں۔( الیوسف) 

 حضرت مولانا مفتی شفیعؒ اسی آیت کے تحت تحریر فرماتے ہیں:

’’ بنیامین کے لئے جو غلہ اونٹ پر لادا گیا، اس میں ایک برتن چھپا دیا ، اس برتن کو قرآن کریم نے ایک جگہ بلفظ سقایہ اور دوسری جگہ صواع الملک کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے ۔ سقایہ کے معنی پانی پینے کا برتن اور صواع بھی اسی طرح کے برتن کو کہتے ہیں۔ اسی کو ملک کی طرف منسوب کرنے سے اتنی بات اور معلوم ہوئی کہ یہ برتن کوئی خاص قیمت اور حیثیت رکھتا ہے، بعض روایات میں ہے کہ زبرجد کا بنا ہوا تھا۔ بعض نے سونے کا بعض نے چاندی کا بتلایا ہے۔ بہرحال یہ برتن جو بنیامین علیہ السلام کے سامان میں چھپادیا گیا تھا، خاصہ قیمتی ہونے کے علاوہ مَلکِ مصر سے کوئی اختصاص بھی رکھتا تھا۔ خواہ یہ کہ وہ خود اس کو استعمال کرتے تھے یا یہ کہ مَلک نے بامرِ خود اس برتن کو غلہ ناپنے کا پیمانہ بنادیا تھا۔‘‘( معارف القرآن جلد پنجم ص۱۰۳)

 قران مجید کے مطابق 7 سالہ قحط کے دور میں غلہ اسٹور کرنے کے لئے میگا گودام انہوں نے ایجاد کئےاور سب سے پہلے پل اور bridges کا نظام متعارف کرویا۔۔ 

یعنی نبی کریمﷺ کی آمد سے کم ازکم 3 ہزار سال قبل دنیا میں جہاز رانی ،ناپ تول کا نظام اور مخصوص آلات  ، اناج کو سنبھالنے کے لئے گوداموں کا نظام اور پل اور پانی ذخیرہ کرنے کے ڈیمز کا رواج شروع ہو چکا تھا جو کہ انجنیئرنگ کے زمرے میں آتا ہے۔۔ 

• اسی طرح کم وبیش حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے *4 ہزار سال قبل دنیا میں آج تک عجوبہ کہلائے جانے والے اہرام مصر تعمیر ہو چکے تھے۔ اور ابولہول کا مجسمہ جو اہرام مصر کے قریب موجود ہے اور اپنی مثال آپ ہے جس کا سر انسان اور جسم شیر یا کسی جانور سے مشابہت رکھتا ہے ۔۔ یہ انجنیرنگ کے شہکار وجود میں ا چکے تھے۔۔ یعنی مجسمہ سازی اور بلند و بالا عمارات ریاضی کے اصولوں پر بنانے کا رواج اپنے عروج پر تھا۔۔

• مصر آج سے 6 ہزار سال قبل یعنی حضرت عیسی علیہ السلام  کی پیدائش سے 4 ہزار سال قبل دریائے نیل کے کناروں پر اپنے والے ایک پودے Papyrus سے کاغذ تیار کر چکا تھا۔ جس تک رسائی ہر خاص وعام کی نہی تھی۔۔ صرف فرعون انہیں استعمال کرتا تھا۔۔ مصری (پرپل ) بنفشی رنگ  کا استعمال کرتے اور یہ صرف فرعون یا بادشاہوں تک محدود تھا۔۔ یعنی مصنوعی رنگ ایجاد ہو چکے تھے۔

بات صرف رنگوں کی ایجاد تک ہی نہیں کیونکہ  آج سے *36 ہزار سال قدیم غار 

The Cave of Altamira, Spain

 میں انسانی ہاتھ سے بنائی گئی پینٹنگز آج مل چکی ہیں ۔۔ اسی طرح  ارجنٹینا کی ایک غار 

Cave of Hands in Patagonia, Argentina

 میں آج سے 13 ہزار سال قبل مختلف ہاتھوں کو مختلف رنگوں میں ڈبو کر ایک ارٹ بنایا گیا ہے۔۔ جیسے بہت سے بچے رنگوں سے کھیلتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو مل کر کسی دیوار سے لگائیں۔۔ اس میں آج کی جدید دنیا کے تقریبا تمام رنگ موجود ہیں۔ تو فرعون جو رنگ اور ملکہ   قلوپطرہ جو عطر استعمال کرتے تھے وہ آج سے 5 ہزار سال قبل اپنے عروج پر تھے۔۔ یعنی آج سے 10 ہزار سال قبل رنگوں کا استعمال باقاعدہ شروع ہو چکا تھا۔

بلکہ آج تو گوگل اس حد تک دعوی کرتا ہے کہ اہرام مصر دراصل energy اور electricity جو آسمانی بجلی سے پیدا ہوتی تھی اسے اسٹور کرنے کے چیمبرز تھے۔۔ یعنی نبی کریمﷺ سے ساڑھے 4 ہزار سال قبل مصری ایسے تجربات کر رہے تھے جن کی بدولت بجلی پیدا کی جاسکتی تھی۔۔ 

The Great Pyramid of Giza can collect and concentrate electromagnetic energy in its chambers and at its base, scientists have discovered. … Its ability to concentrate electric and magnetic energy was discovered by a team of researchers led by scientists from ITMO University in the Russian city of St Petersburg.01-Aug-2018

اور یہ شائد اس وقت ہوتا تھا جب آسمانی بجلیاں کڑکتی اور ان بجلیوں کو ایک اونچے ٹاور کے زریعے اہرام مصر کے نیچے بنے ہوئے چیمبرز جو ڈرائی بیٹریز کی طرز پر تعمیر کئے گئے تھے ان آسمانی بجلیوں کو محفوظ کر لیتے اور کچھ عرصہ ان سے کام چلاتے۔۔ یہی وجہ ہے کہ ٹنوں وزنی پتھروں کی کٹائی اس طرح سے کی گئی ہے جیسے انہیں لیزر مشینوں سے تراشا گیا ہو اور حیرت انگیز بات جس نے محققین کو متاثر کیا ہے وہ اہرام کےاندر گہرائی میں جانے والے راستوں اور کمروں میں اس زمانے کے رواج کے مطابق مشعل یا چراغ لگانے یا کسی بھی قسم کی مصنوعی روشنی لالٹین لٹکانے کے انتظامات نہیں ہیں  ۔۔  شائد اسی وجہ سے حضرت موسی علیہ السلام  کو بجلی کی روشنی کی طرح چمکتے ہوئے ہاتھ کا معجزہ عطا کیا گیا۔ جو وہ جب چاہتے عوام کو دکھاتے۔۔اسی طرح سے قران کریم میں بنی اسرائیل پر کوہ طور اٹھا کر قسم کھانے کا واقعہ درج ہے۔

ترجمہ: یاد کرو وہ وقت ،  جب ہم نے طور کو تم پر اٹھا کر تم سے پختہ عہد لیا تھا اور کہا  تھا کہ ’’ جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامنا اور جو احکام و ہدایات اس میں درج ہیں انہیں یاد رکھنا  ۔ البقرہ

شائد یہ بھی فرعون کی اس طاقت کا جواب ہے جو وہ اہرام مصر بناتے ہوئے اپنی ٹیکنالوجی سے اتنے بڑے بڑے پتھر آسانی سے اہرام مصر کی جگہ پہنچاتا تھا۔۔ کہ کہاں چند ٹن وزنی پتھروں کو تقلید اور کہاں پورا کوہ طور بنی اسرائیل کے سرداروں کے سر پر معلق کر دینا۔۔ لیکن اس بات سے ہرگز اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ آج سے 6 ہزار سال قبل یہ چاروں تہذیبیں علم اور ٹیکنالوجی کی اس بلندی پر تھیں جس پر آج بھی 80 فیصد پاکستانی زندگی بسر نہیں کر رہے۔۔ان تہذیبوں میں انجنیرنگ اپنی معراج پر تھی۔۔ (میسوپوٹیمیہ) قدیم عراقی تہزیب میں پل،گودام اور ناپ تول کا نظام رائج ہو رہا تھا۔ ٹھیک اسی دور کے قریب قریب  مصر اہرام مصر جیسا شاہکار تخلیق کر رہے تھے، رنگوں سے کھیلتے رہے تھے، شائد بجلی پیدا کر رہے تھے اور کاغذ ایجاد کر چکے تھے۔ اور  انڈس یا سندھ کی تہزیب موہنجوداڑو  اس دور کے ہر سہولت سے آراستہ شہر آباد کر رہی تھی۔ جس کے شہر میں پانی لانے اور نکاسی آب کا سسٹم آج 2021 میں بھی انسان کو ششدر کرتا ہے اور شہروں کا ایک دوسرے سے سڑکوں اور محفوظ چوکیوں کے نظام سے جڑے ہونا۔۔ ان کی یونیورسٹیوں کا نظام ہو یا گھروں کا آرکیٹیکچر، انسان کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ آج سے 5 ہزار سال قبل ان کے حمام ان تک گرم اور ٹھنڈا پانی پہنچانے کا نظام حیران کن ہے۔۔ میری نظر میں یہ دور اس دنیا پر انجنئرنگ کا شہکار تھا۔۔ ان کے مدمقابل چوتھی تہزیب یعنی چین دنیا کو اپنے ریشم  اور پارچہ جات چمڑے اور مصالحہ جات سے مرعوب کر رہا تھا۔۔ 

اور یہ چاروں تہذیبیں آپس میں 4000 میل طویل “سلک روٹ” سے زمینی اور سمندری Maritime Silk Road سے منسلک تھے اور تاجر بے فکری سے ان راستوں پر رواں دواں دنیا کا معاشی نقشہ بدل رہے تھے ۔۔ ان کی بندرگاہوں کی ترقی اور عیاشیاں اللہ کی امان ۔۔ اور یہ سب نبی کریمﷺ کی آمد سے 4 ہزار سال قبل سے لیکر ایک ہزار سال قبل تک پوری اب وتاب سے ہو رہا تھا۔

• پھر ان تہذیبوں کا شیرازہ بکھرنا شروع ہوا اور بڑی چھوٹی سلطنتوں کا دور شروع ہوا ۔۔ اس دور میں یونان دنیا کے نقشہ پرایک مضبوط سلطنت کی صورت میں نمودار ہوا۔۔ جہاں حضرت عیسی علیہ السلام  سے ایک ہزار سال قبل فلسفہ کے علم نے سر اٹھایا۔ اور دنیا میں فلسفہ ،تھیٹر  اور ڈرامہ کا تعارف یونان نے کرایا۔  انہوں نے تمام علوم کی ماں فلسفہ کو وہ ترقی دی کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ یہی یونان ہے جس نے سب سے پہلے یعنی حضرت عیسی علیہ السلام  سے قبل اولمپکس کی بنیاد رکھی اور مختلف مقابلوں اور کھیلوں کی داغ بیل رکھی۔۔ ارسطو،سقراط  وغیرہ یونان کےعلم  فلسفہ کو عروج دینے والی شخصیات میں سے ہیں۔۔ یہیں پر ڈرامے کے لئے بنائے جانے والے تھیٹرز کی ابتدا ہوئی اور لوگ یہاں آ کر مختلف موضوعات، سیاست،شہریت، لٹریچر پر ڈرامے دیکھا کرتے اور یہ سب حضور نبی کریمﷺ کی آمد پاک سے ایک ہزار سال قبل ہو رہا تھا ۔۔ حضرت عیسی علیہ السلام  سے کم و بیش 50 سال قبل آج کا کلینڈر جولیس  سیزر نے جولین کلینڈر کے نام سے ایجاد کر دیا ۔  جو حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے بہت سارے سالوں بعد عیسوی کلینڈر کی موجودہ شکل میں موجود ہے۔۔ تاہم 365 دن اور 12 ماہ کا کلینڈر سب سے پہلے مصری تہزیب نے حضرت عیسی علیہ السلام  سے 3000 سال قبل ایجاد کیا ۔۔۔

یہی وہ دور ہے جب حضرت داؤد علیہ السلام لوہے کی صنعت کو عام فرما رہے تھے۔۔ اور لوہے کی صنعت نے دنیا میں کمرشل صنعت کا درجہ حاصل کیا ، لوہے کا ہر طرح کا استعمال شروع ہوا۔ ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام  آج سے ڈھائی ہزار سال قبل ہیکل سلمانی بنا رہے تھے جو کہ ایک انسانی معجزہ ہے۔۔ اس میں استعمال ہونے والی دیواریں جو خالص پتھر کی چٹان کات کر بنائی گئی ہیں انہیں اس جگہ تک لانا اور ایک دوسرے پر اس طرح رکھنا کہ ان دونوں کے درمیاں ایک کریڈٹ کارڈ بھی نہ جاسکے۔۔ واقعی جنوں ہی کا کام ہو سکتا ہے۔۔ یا ٹیکنالوجی اپنے عروج پر تھی۔۔اسی طرح اردن میں 3 ہزار سال سے بھی پہلے پہاڑ اور چٹانوں کو تراش کر ان میں weather friendly رہائش گاہیں اور مارکیٹیں بن چکی تھیں۔

•حضرت عیسی علیہ السلام  سے 3 سو سال قبل سکندر اعظم کو دنیا فتح کرنے کا جنون سوار ہوا اور قدیم تہذیبوں کی سرحدوں کی جگہ  مملکت سکندر اعظم کی بنیاد پڑی ۔  اسی دور میں ہندوستان پر چندر گپت موریا نے موریا سلطنت کی بنیاد رکھی۔۔ جس کا علم و ہنر کا مرکز آج پاکستان میں واقع ٹیکسلا رہا ہے۔۔ 

صحف  ابراہیم علیہ السلام  اور موسی علیہ السلام پر تورات آسمانی کتب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے 3 سے  4 ہزار سال قبل نازل ہوئیں اور یہاں بھی قران نے حضرت موسی علیہ السلام  کی تورات کا زکر تختیوں کی صورت میں کیاہے۔۔

ترجمہ:اور ہم نے اس کے لیے (تورات کی) تختیوں میں ہر چیز کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی (الاعراف)

 کیونکہ اس زمانے میں مٹی کی گیلی تختیوں پر میخی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا۔  اسی میخی رسم الخط Cuneiform میں سب سے قدیم رزمیہ داستان گلگامیش جو کہ آج سے ساڑھے 4 ہزار سال قدیم ہے اس کی تختیاں بھی ملی ہیں اور حمورابی بادشاہ جو کم وبیش ساڑھے تین ہزار سال قبل تھا اس کے قوانین بھی پتھر کی سلوں پر کنندہ ملے ہیں۔۔ جس کو عدل و انصاف کے سب سے پہلے لکھے ہوئے قوانین تصور کیا جاتا ہے۔ جو حضرت موسی علیہ السلام  سے کم وبیش ایک ہزار سال قبل تھے۔ لیکن نبی کریمﷺ کی آمد تک دنیا میں ہڈیوں اور پتھروں پر لکھنے کی بجائے کپڑا ، چمڑا،بانس اور پام ٹری سے بننے والے باریک کاغذ نما میٹیریل کا استعمال اور امراء میں کاغذ کا استعمال شروع ہو چکا تھا۔۔ 2500  سے 3 ہزارسال قبل لکھی جانے والی غیر الہامی کتب ارتھ شاستر، اور چین کی جنگی کتب کو بانس کے بنے خصوصی میڑیل اور پام درخت کے پتوں کو کاغذ کی طرح محفوظ کر کے ان پر لکھا گیا ہے۔۔ یہ دو کتابیں جو الہامی نہیں لیکن دنیا میں آج تک پذیرائی حاصل کر رہی ہیں۔۔ ان میں چندر گپت موریا کے استاد ،وزیر اعظم اور سرپرست چانکیہ کوٹلیہ کی “ارتھ شاستر” جو اس نے حضرت عیسی علیہ السلام  سے کم وبیش 3 سو سال قبل  تحریر کی ۔یہ چندر گپت موریا کی حکومت چلانے کی گائیڈ بک تھی جس کے کم وبیش 180 باب ہیں۔ اور ہندوستان میں آج بھی حکومت ،سیاست میں اس کتاب سے رہنمائی لی جاتی ہے۔ اور ہندوستان کی خفیہ دہشت گرد تنظیم RAW کی بنیاد یہ ڈھائی ہزار سالہ پرانی کتاب ہے۔  کوٹلیہ چانکیہ نے اس آفاقی تصنیف میں قدیم ہندوستانی تمدن کے ہر پہلو کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا ہے۔ علوم و فنون، معیشت، ازدواجیات، سیاسیات، صنعت و حرفت، قوانین، رسم و رواج، توہمات، ادویات، فوجی مہمات، سیاسی و غیر سیاسی معاہدات اور ریاست کے استحکام سمیت ہر وہ موضوع کا احاطہ کیا ہے۔۔اسی طرح ایک اور کتاب جو حضرت عیسی علیہ السلام  کی پیدائش سے 510 سال قبل چین کے عسکری مفکر سون زو نے فن جاسوسی پر مشہور زمانہ کتاب آرٹ آف وار پنگ فا ، Art of War Pingfa  لکھی تھی. اس کے بعد کوٹلیہ کی کتاب Arth Shastra ہی اس فن کی اہم کتاب سمجھی جاتی ہے,۔ یہ دونوں کتابیں آج بھی چین اور ہندوستان میں اپنا ایک مقام رکھتی ہیں اور یہ حضرت عیسی علیہ السلام کی بائبل سے کم و بیش 500 سے 800 سال پہلے لکھی گئیں۔ اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ یونان کے فلسفہ کے بعد علمیت کا ایک ایسا دور شروع ہوا جس میں کتاب اور درس وتدریس کو بنیادی درجہ حاصل ہو گیا اور جو علم فلکیات سے انجنیرنگ اور انجینئرنگ سے امور سلطنت تھا اب کتب کی زینت بن گیا اور اہم کتب کو لکھا اور محفوظ کرنے کا طریقہ درختوں کی چھال سے بنائے گئے باریک کاغذ، چمڑکی باریک پرتھوی اور کاغذ پر تھا۔۔ لیکن ہمارا ایک طبقہ اس دور کے ایک ہزار سال بعد نبی کریمﷺ کے زمانے کو اتنا اندھیرا کر کے دکھاتا ہے کہ پتھروں ،ہڈیوں اور چمڑے پر قران اور حدیث کو محفوظ کرتا ہے۔ جبکہ کسی نبی نے اپنے زمانے میں 80 سے زائد کاتبین وحی یا لکھنے والوں کو مقرر نہیں کیا جس طرح نبی کریمﷺ نے انتظام فرمایا۔۔ لیکن ایسا دکھایا جاتا ہے کہ کاتبین وحی کو جو کچھ اچانک ہاتھ آتا وہ اس پر لکھ لیتے۔۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باقاعدہ تعلیم فرماتے اور لکھواتے۔دنیا کا عظیم ترین نبی عظیم ترین معجزہ کو لکھوا رہے ہوں اور مستقل اور اعلی انتظام نہ ہو یہ ممکن نہی۔۔ آپ صلح حدیبیہ ہی کے معاہدے کا انتظام دیکھ لیں سفر میں عرب قبائل کے ساتھ وہاں نہ ہڈی ہے نہ پتھر ۔ باقاعدہ قلم ،چمڑے یا کاغذ کا استعمال ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ  کاتب ہیں۔۔ لیکن قران اور وحی کے لکھائی کے بارے میں ہمارے خیالات ایک فرسودگی کا شکار ہیں ۔

اس کے بعد کا دور حضرت عیسی علیہ السلام  کا دور ہے جو میری نظر میں علم طب و جراحت کا دور تھا کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام  کو جو معجزات عطا کئے گئے ان میں مردہ کو زندہ کرنا، مٹی کا پرندہ بنا کر اس اسے زندہ کرنا اور مادر زاد اندھے اور کوڑھ کے مریض کو شفایاب کرنا شامل تھے ۔جو غالبا اس زمانے کے طب کے بس کی بات نہی تھی ۔۔۔

1870 قبل مسیح میں شمالی عراق کے شہر آشور اور موجودہ ترکی کے درمیاں خواتین کی تاجروں کی اجارہ داری تھی۔ایک نئی کتاب سے ہمیں اس برادری کے اندر ایک حیرت انگیز گروہ یعنی ان خواتین کے بارے میں غیر معمولی معلومات حاصل ہوتی ہیں جنھوں نے سماجی اور اقتصادی تبدیلیوں کے ذریعے پیدا ہونے والے نئے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور وہ کام بھی کیے جو اس وقت عام طور پر مرد ہی کرتے تھے۔درحقیقت کہا جا سکتا ہے کہ یہ انسانی تاریخ کی پہلی معلوم کاروباری خواتین، خواتین بینکار، اور خواتین سرمایہ کار تھیں۔اپنے خطوط پروفیشنل لکھاریوں سے املا کر کے لکھوانے کے بجائے خود لکھنے والے اولین مرد اور عورتیں تھے۔ ہم ان ہی خطوط کی وجہ سے آج کئی پرعزم اور پرجوش خواتین کی آوازیں سُن سکتے ہیں جو ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ انتہائی قدیم زمانے میں بھی تجارت اور ایجادات کے شعبے پر مردوں کی حکمرانی نہیں تھی۔اسی طرح سے زمانہ قدیم میں 3 بڑے تجارتی روٹ تھے ،جن میں عربوں کی اجارہ داری اور کمال اثر رسوخ تھا ۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔ بقیہ مضمون پارٹ 2 میں ملاحظہ فرمائیں 

اپنا تبصرہ بھیجیں