سیریز: آج کا دن
14 جنوری – آج قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا یوم پیدائش ہے
مختصر تعارف
پیدائش: 14 جنوری 1900(جالندھر، پنجاب،برطانوی تسلط ہندوستان)
وفات: 21 دسمبر 1982 (عمر 82 سال) (لاہور،پنجاب، پاکستان)
والد:شمش الدین
زوجین: زینت بیگم، خورشید بیگم
قومیت : پاکستانی
پیشہ: اردو شاعر
صِنف: غزل
موضوعات: حُب الوطنی، فلسفہ
ادبی تحریک : تحریک پاکستان
نمایاں کام: قومی ترانہ کا خالق، شاہنامہ اسلام
نمایاں اعزاز(ات) :تمغۂ حسنِ کارکردگی، ہلال امتیاز
فردوسیِ اسلام ابوالاثر حفیظ جالندھری کی شاعرانہ ہی نہیں بلکہ قومی حیثیت بھی محتاجِ تعارف نہیں اور ایک زمانہ اس سے آگاہ ہے۔ ملک و ملت کی جس قدر خدمت اپنی شاعری کے ذریعے حفیظ نے کی اس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ پاکستان اور پاکستانی قوم کے محسنین میں ایک نمایاں مقام کے حامل ہیں۔
حفیظ کی ذاتی زندگی سے آغاز کرتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ 1900ء میں پنجاب کے مشہور قصبے جالندھر میں پیدا ہونے والے اس شخصیت کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ آغاز میں کسب معاش کیلئے ریلوے میں ملازمت اختیار کی اور بعد ازاں چھوٹی موٹی ملازمتیں اختیار کیں۔ ساتھ ہی ساتھ علم و ادب سے اپنی بے پناہ دلچسپی کو بھی برقرار رکھا اور مختلف جرائد اور رسالوں میں لکھتے رہے اور قلیل آمدنی کے باوجود علم و ادب کی خدمت دل و جان سے کرتے رہے۔ چنانچہ اپنی خداداد صلاحیتوں اور ادبی خدمات سے بہت جلد ناموری حاصل کرلی اور نہ صرف ہندوستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی شہرت نے ان کے قدم چومے۔ 1942ء میں آپ اینٹی فاشٹ پراپیگنڈہ کے شعبہ سانگ پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ میں پہلے ڈائریکٹر اور پھر ڈائریکٹر جنرل بنے۔ 1947ء میں ڈائریکٹر جنرل مورال آرمڈ سروسز آف پاکستان مقرر ہوئے۔ 1955ءمیں فیلڈ ڈائریکٹر آف پبلسٹی ویلج ایڈمنسٹریشن بنے اور 1961ء میں ڈائریکٹر ادارہ تعمیر نو پاکستان مقرر ہوئے۔
آغازِ قیام پاکستان میں حضرت قائداعظمؒ کے حکم پر جنگِ کشمیر میںحصہ لیا۔ آزاد کشمیر ریڈیو کی بنیاد رکھی۔ جنگِ کشمیر میں زخمی ہوگئے۔ اس طرح میدانِ جنگ کو اپنے خون سے خود بھی لالہ زار بنایا اور قدیم لشکر اسلام کے شعرا کی یاد تازہ کر دی۔ اسی طرح 1965ء میں محاذِ جنگ پر اگلے مورچوں پر جا کر مجاہدین کا لہو گرماتے رہے۔ جنگوں میں اپنی افواج کے شانہ بشانہ خود حصہ لینے کے عمل نے انہیں ایک ایسی منفرد حیثیت کا مالک بنا دیا جو کسی اور کو حاصل نہیں۔ حفیظ کا ایک فقیدالمثال کارنامہ تاریخ اسلام کو نظم کرنے کا ہے جو شاہنامہ اسلام کے نام سے مشہور ہے اور آج بھی مذہبی محفلوں میں بڑے اہتمام سے پڑھا جاتا ہے۔ حفیظ کی ایک اور وجہ عظمت انکا مصنفِ قومی ترانہ پاکستان ہونا ہے۔ سینکڑوں ترانوں میں سے حفیظ کے لکھے گئے ترانے کو قومی ترانہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ مقامِ افسوس ہے کہ وہ قومی ترانہ جو پاکستان کے طول و عرض اور بیرون ملک جہاں بھی پاکستان کے سفارتخانہ ہو وہاں بھی گونجتا ہے لیکن اس کے مصنف کو اس طرح یاد نہیں کیا جاتا جو اس کا حق ہے۔ اکثر مقامات پر ترانے کے ساتھ اس کے مصنف کے نام کو نہیں لکھا جاتا۔ حفیظ صاحب نے آزاد کشمیر کا قومی ترانہ نہ صرف لکھا بلکہ اس کی دھن بھی خود بنائی۔ قومی ترانہ پاکستان اور شاہنامہِ اسلام کی تخلیق نے حفیظ کو ایک ایسے مقام کا حامل بنا دیا جو کسی اور کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ شاہنامہِ اسلام اور ترانے کے علاوہ حفیظ کی بے شمار ادبی تصانیف میں نغمہ زار، سوزوساز، تلخابہِ شیریں، بزم نہیں رزم، چراغِ سحر، نے بہت شہرت پائی۔ آپ نے نثر میں بھی کئی کتابیں تصنیف کیں جن میں ہفت بیکر، معیاری افسانے، نثرانے، چیونٹی نامہ بہت مشہور ہیں۔ آپ نے بچوں کیلئے بھی بےشمار نظمیں اور گیت لکھے۔
اپنی اعلیٰ شعری اور علمی خدمات کے علاوہ انہیں اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکتِ پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی بھی بہت فکر تھی اور اس کیلئے انہوں نے مقدور بھر کوششیں کیں۔ جہاں ایک طرف وہ سپاہ کے شانہ بشانہ جنگوں میں حصہ لیتے رہے وہیں انہوں نے نظریہ پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں اور اسلام مخالف نظریات والے لوگوں پر نہ صرف کڑی نظر رکھی بلکہ ان کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ معروف شاعر، ادیب اور حفیظ کے فرزندِ مُتبنٰی حمید کوثر کے بقول حفیظ نہ صرف نہایت اعلیٰ پائے کے شاعر اور ادیب تھے بلکہ ایک بہت بڑی نظریاتی قوت بھی تھے جن سے الحاد پسند اور پاکستان مخالف قوتیں خائف رہتی تھیں۔ آپ مرتے دم تک پاکستان دشمنوں سے برسرِپیکار رہے۔
ملک و ملت کی بے پناہ خدمت کرنے والی اس شخصیت کی شایانِ شان پذیرائی ہم پاکستانیوں کا فرض ہے۔ لازم ہے کہ حفیظ کے کلام کو کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر نصاب میں زیادہ سے زیادہ شامل کیا جائے۔ یومِ حفیظ سرکاری سطح پر منانے کا اہتمام کیا جائے۔ نئی نسل کو حفیظ کے نام اور کلام سے زیادہ سے زیادہ روشناس کروایا جائے
باتیں حفیظ جالندھری کی
حفیظ صاحب کسی کے رعب اور دبدبے میں ہرگز نہیں آتے تھے اور نہ ہی کسی پر چوٹ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیتے۔ سب بڑے بڑوں کو ڈانٹ پلا دیتے۔ سیدضمیر جعفری اور عزیز ملک نے جو حفیظ کے بہت قریب رہے ہیں، مجھے کئی واقعات سنائے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی کو اپنے سے بڑا نہ سمجھتے۔ کسی کی قصیدہ گوئی اور خوشامد کرنا تو درکنار وہ کسی سے جھک کر ملنا بھی کسرِشان سمجھتے۔چاہے کوئی بہت بڑا سرکاری افسر ہو یا کوئی وزیر، وہ اپنا مقام و مرتبہ اس سے اوپر ہی سمجھتے اور اسی کے مطابق گفتگو کرتے۔ البتہ چھوٹوں سے ان کا رویہ محبت اور شفقت والا ہوتا اور عام آدمی سے برابر کی سطح پر بات کرتے۔
کس میں جرأت تھی جو وزرا سے کرسیاں خالی کرواتا جب خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل تھے تو حیدرآباد میں کُل پاکستان مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ مشاعرے کی صدارت خواجہ ناظم الدین صاحب نے کرنی تھی۔ سیدضمیرجعفری راوی ہیں کہ مشاعرہ گاہ میں جانے سے قبل سبھی شاعر دوسرے ہال میں عشائیے کی دعوت میں جمع تھے۔ کھانے کے بعد سبز قہوے کا دور چلا۔ اتنے میں اعلان ہوا کہ گورنر جنرل تشریف لایا چاہتے
ہیں۔ شعرائے کرام سے درخواست کی گئی کہ مشاعرہ گاہ میں تشریف لے جا کر اپنی نشستیں سنبھال لیں۔
جب شعراء جناب حفیظ جالندھری کی قیادت میں مشاعرہ ہال میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ جو کرسیاں سٹیج پر شعرائے کرام کے لیے رکھی گئی ہیں، ان پر وزرائے کرام اور دوسرے سربرآوردہ معززین براجمان ہیں۔ صدر مشاعرہ کی کرسی کے علاوہ اور کوئی خالی نہیں۔
شعراء تو سٹیج کے قریب پہنچ کر رُک گئے مگر حفیظ سیدھے اوپر جا پہنچے اور شعراء کی نشستوں پر قابض وزرائے کرام سے بآوازِبلند فرمایا ’’جناب! یہ کرسیاں خالی کرکے سٹیج سے نیچے تشریف لے جائیں۔ ‘‘وہ پہلے تو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ جب حفیظ صاحب نے اپنا مطالبہ دہرایا اور اس اثنا میں کچھ اور شاعر بھی حفیظ صاحب کی اقتدا میں سٹیج پر جا پہنچے تو ان حضرات کو اٹھتے ہی بنی۔ نیچے ہال میں بھی کوئی نشست خالی نہ تھی۔
خیر منتظمین نے دوڑ بھاگ کرکے پہلی قطار کے آگے ایک اور صف لگائی۔ ابھی یہ اکھاڑ پچھاڑ جاری ہی تھی کہ صدر مشاعرہ جناب خواجہ ناظم الدین تشریف لے آئے۔ اس اثنا میں شعرائے کرام اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے۔ سید ضمیر جعفری بتاتے ہیں کہ حفیظ صاحب نے سٹیج پر وزرائے کرام کو عالی جاہ یا سر جیسے الفاظ سے خطاب نہیں کیا اور نہ انھیں ہنستے مسکراتے ہوئے جھک کر سلام کہا۔ اگر وہ کرسیاں خالی نہ کرواتے تو منتظمین مشاعرہ میں سے کسی کی اتنی جرات نہ تھی جو وزیروں کو جا کر کہتا کہ کرسیاں خالی کردیں اور پھر اس پر فوری عمل بھی کرواتا۔منتظمین میں ہمت اور سلیقہ ہوتا تو وہ پہلے ہی کسی کو سٹیج پر نہ بیٹھنے دیتے اور وزراء کے لیے نیچے پہلی صف میں نشستیں خالی رکھتے۔