فرق تو پڑتا ہے نا!

ایک دانشمند مضمون نگاری کے لئے روزانہ سمندر کا رخ کیا کرتا تھا، اس کی عادت تھی کہ کام شروع کرنے سے پہلے وہ ساحل سمندر پر چہل قدمی کیا کرتا تھا۔
ایک روز وہ ساحل پر ٹہل رہا تھا تو اسے کچھ دور کنارے پر ایک انسانی ہیولا کسی رقاص کی مانند حرکت کرتا دکھائی دیا، وہ متجسس ہوا کہ یہ کون شخص ہے جو دن کا آغاز رقص سے کرتا ہے، یہ جاننے کے لئے وہ تیز قدموں سے اس کی جانب چل پڑا، وہ نزدیک پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایک نوجوان ہے، نوجوان رقص نہیں کر رہا تھا- وہ ساحل پر جھکتا، کوئی شے اٹھاتا اور پھر پھُرتی سے اسے دور سمندر میں پھینک دیتا، دانش مند اس نوجوان کے پاس پہنچا اور بلند آواز میں پوچھا: ” صبح بہ خیر جوان! یہ تم کیا کر رہے ہو؟ “
نوجوان نے قدرے توقف کیا نظریں اٹھا کر دانش مند کی جانب دیکھا اور بولا؛
” ستارہ مچھلی کو سمندر میں پھینک رہا ہوں ”
“میں سمجھا نہیں، تم ستارہ مچھلی کو سمندر میں کیوں پھینک رہے ہو؟ ”
سورج چڑھ رہا ہے اور لہریں پیچھے ہٹ رہی ہیں، اگر میں نے انھیں پانی میں نہیں پھینکا تو یہ مر جائیں گی۔
لیکن نوجوان ! یہ ساحل تو میلوں تک پھیلا ہوا ہے اور سارے ساحل پر ستارہ مچھلیاں بکھری ہوئی ہیں ممکن نہیں کہ تمھاری اس کوشش سے کوئی فرق پڑے۔
نوجوان نے شائستگی سے دانش مند کی بات سنی، نیچے جھک کر ایک اور ستارہ مچھلی اٹھائی اور اسے پیچھے ہٹتی ہوئی لہروں کے اندر پوری قوت سے اچھالتے ہوئے بولا؛
لیکن اس کے لیے تو فرق پڑ گیا نا!

حاصل سبق: ہمیں بھی اسی طرح ہر کسی کے ساتھ اچھائی کرتے رہنا چاہیے یہ سوچے بغیر کہ اس سے معاشرے پر فرق پڑے گا کہ نہیں، کیونکہ جس کے ساتھ اچھائی کی گئی اُس پر توُ فرق پڑے گا نا!

اپنا تبصرہ بھیجیں