گاڈ فادرکون تھا؟

گاڈ فادر اٹلی کا باشندہ تھا۔ وہ دُنیا کا پہلا شخص تھا جس نے جرائم کو سائنسی بنیادیں فراہم کیں۔ وہ ریاست کے اندر ریاست اور انڈر ورلڈ جیسی معروفِ زمانہ اصطلاحوں کا بھی بانی تھا ۔اس نے باقاعدہ ایسے ادارے قائم کیے جن میں مجرموں کو جرائم کی تربیت دی جاتی تھی دوسرے الفاظ میں جرائم کی دُنیا کی اکیڈمی  اور طالب علم اس نے ہی روشناس کروائے، اس نے مجرموں کا ایک بین الاقوامی نیٹ ورک بھی قائم کیا ۔اس کے بارے میں مقولہ مشہور تھا کہ وہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے سے پہلے دُنیا کے ہر کونے میں موجود پایا جاتا ہے۔ اس نے اسلحہ، منشیات اور جعلی دستاویزات تیار کرنے کے لیے باقاعدہ لیبارٹریاں بنائیں اور ان لیبارٹریز کو جرائم کے نت نئے نئے طریقے ایجاد کرنے پر لگا دیا۔ اس نے قاتلانہ حملوں کے چار بین الاقوامی سکواڈ تشکیل دیئےاور ان سکواڈ میں ایسے سنگدل ، ظالم اور خوفناک لوگ بھرتی کیے جو لوگوں کو قتل کرنے کے بعد اُن کے خون سے مُنہ اور ہاتھ دھوتے تھے ۔ چنانچہ دُنیا میں ایک ایسا وقت بھی آن پہنچا جب دُنیا کے تمام بڑے بڑے حکمران گاڈ فادر کے نام سے کانپ جاتے تھے ، اُن کی سانسیں رُک جاتی تھیں۔ گاڈ فادر ایک خوف ، ایک کالی آندھی، ایک دہشت کی علامت اور انسانی رگوں میں اُتر جانے والا ایک ڈر بن گیا۔

گاڈ فادر کی شروعات بڑی دلچسپ اور قابلِ غور تھیں۔ وہ ایک چھوٹا سا مجرم تھا،لیکن قدرت نے اُسے قیادت کی بے مثال اور لاتعداد صلاحیتوں سے نواز رکھا تھ۔ وہ گروپ اور ریکٹ بنانے کا ماہر تھا ۔وہ ویژنری اور جدت پسند انسان تھا ۔وہ ہمیشہ دو تین عشرے آگے کی بات سوچتا تھا ۔اس نے 1934 میں ایک دلچسپ منصوبہ بنایا۔ اس نے چند یونیورسٹی پروفیسرز اور ریٹائرڈ سیاستدانوں کی خدمات حاصل کیں۔ پروفیسروں نے اٹلی کی تمام یونیورسٹیوں کا دورہ کیا اور گاڈ فادر کو تمام ذہین اور باصلاحیت نوجوان طالب علموں کی فہرستیں بنا دیں اور بزرگ سیاستدانوں نے اسے ان تمام لوگوں کے نام اور ایڈریس فراہم کر دیئے جو مستقبل قریب میں بڑے سیاستدان ثابت ہو سکتے تھے۔گاڈ فادر نے ان تمام طالب علموں کو وظائف دیئے ان کو برطانیہ اور امریکہ کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں تعلیم دلوائی اور اس کے بعد انہیں اٹلی کے بڑے بڑے سرکاری، نیم سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں بھرتی کروا دیا۔ اس نے چھوٹے چھوٹے سیاستدانوں کی پشت پناہی کی اور اُنہیں سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل کروا دیا ۔اس نے قانون دان جمع کیے اور ان میں سے بے شمار وکیلوں کو جج بنوا دیا اس نے اپنے ریکٹ کے لوگوں کو سفیر، مشیر اور وزیر بنوایا اس نے اپنے لوگوں کو صنعت کار، تاجر اور بروکر بنوایا۔ اس نے اپنے بہت سے لوگوں کو بینکار، قانون دان ،قلمکار اور ماہر معاشیات دان بنوایا۔ یہ تمام لوگ ابتدا میں اٹلی اور بعد ازاں پورے یورپ میں پھیل گئے اور اُنہوں نے آگے چل کر بے شمار ملکوں کی معیشت اور سیاست اپنے ہاتھ میں کر لی جبکہ اس کے بیٹے گاڈ فادر دوم نے اپنے باپ کے سلسلے کو امریکہ، لاطینی امریکہ اور مغربی یورپ تک پھیلا دیا اور اس نے آدھی دُنیا کو اپنے دائرہ کار میں شامل کر لیا۔

ایک وقت ایسا تھا جب گاڈ فادر کے حکم سے پورے یورپ کے قوانین بدل جاتے تھے اور وہ شحص حقیقت میں پوری دُنیا کا بے تاج بادشاہ تھا اور دُنیا میں جس شخص نے گاڈ فادر کے خلاف رپٹ تک درج کرنی ہوتی تھی وہ اُس کا ہی ہرکارہ ہوتا تھا۔ جس نے رپٹ پر دستخط کرنے ہوتے، جس نے مہر ثبت کرنی ہوتی ، جس نے گرفتاری کا حکم دینا ہوتا، جس نے چھاپہ مارنا ہوتا ، جس نے عدالت میں پیش کرنا ہوتا ، جس وکیل نے اس پر چارج شیٹ لگانی ہوتی ، جس سیاستدان نے اس کے خلاف قانون بنانا ہوتا اور جس وزیر، مشیر یا وزیرِ اعظم نے اس کے خلاف پریس ، کانفرنس کرنا ہوتی تھی وہ سب کے سب اس گاڈ فادر کے پے رول پر ہوتے تھے۔اور ان میں سے ہر شخص اپنی صبح کا آغاز گاڈ فادر کے قدموں کو ہاتھ لگا کر کرتا تھا چنانچہ وہ دُنیا کے اقتدار اور اختیار کی رگوں میں اُتر گیا تھا اور وہ دُنیا کا حقیقی بادشاہ گردانا جاتا تھا۔

1973 میں امریکہ نے گاڈ فادر کے اس سسٹم کو ’’اون‘‘ کر لیا اور اسے اپنی خارجہ پالیسی کا حصّہ بنا لیا۔ گاڈ فادر کا سسٹم امریکہ تک کیسے پہنچا اس کے لیے ہمیں ویتنام کی جنگ کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ 6 مارچ 1965 میں ویتنام کی سرزمین پر امریکہ کا پہلا فوجی کا نوائے اُترا ۔ یہ جنگ 8 برس جاری رہی ۔ اس اعصاب شکن لمبی جنگ میں امریکہ نے شدید مالی، سیاسی، سماجی اور فوجی نقصان اُٹھایا اور 29 مارچ 1973 کو امریکہ کا آخری فوجی پسپا ہو کر ویتنام سے نامراد لوٹا۔ امریکہ بظاہر یہ جنگ ہار گیا مگر اس جنگ نے اُسے گاڈ فادر بنا دیا۔ امریکہ نے پہلی بار محسوس کیا کہ وہ اسلحے، فوج اور ڈالروں کی بنیاد پر پوری دُنیا کو مفتوح کر کے حکومت نہیں کر سکتا لہذا اس نے اگر پوری دُنیا کی سپر پاور بننا ہے تو اسے گاڈ فادر کے فارمولے پر عمل کرنا ہوگا ۔اسے تیسری دُنیا میں یونیورسٹی کے اُستاد سے لے کر وزیرِ اعظم تک ہر عہدے پر اپنے لوگ بٹھانا ہوں گے۔ اسے فوج، عدلیہ ، بیوروکریسی، پولیس ، صحافت اور سیاست سمیت دُنیا کا ہر بڑا شعبہ اپنے ہاتھ میں لینا ہو گا۔ امریکہ نے فیصلہ کیا اور اس پر عمل درآمد شروع کر دیا ۔اس نے تیسری دُنیا کے اچھے طالب علم اُٹھائے ،انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے وظیفے دیئے، انہیں امریکہ اور یورپ کی بہترین یونیورسٹیوں میں تعلیم دلوائی اور اس کے بعد انہیں اپنے اپنے ملکوں کے با اثر اور حساس عہدوں پر بٹھا دیا۔ امریکہ نے نوجوان بیوروکریٹس کو تکنیکی مہارتوں کے نام پر اپنے ملک میں کورسز کروائے ،ان کی برین واشنگ کی اور اُن کے ملکوں میں کلیدی عہدوں پر براجمان کرا دیا۔ اس نے افسروں کو اپنی عسکری اکیڈیمیزمیں ٹریننگ دی اور امریکی ذہن دے کر اُن کے ملکوں میں واپس بھیج دیا ۔اس نے ماہر قانون دانوں کو امریکی فلسفے کی ٹریننگ دی اور جج بنوا دیا۔اب تو امریکہ تربیت اور جدیدیت کے نام پر تیسری دُنیا کے ممتاز ملکی اسکالرز کے ذہنوں میں امریکی ازم ڈال دیا ہے جو کہ انتہائی خطرناک کھیل ہے۔ اس نے ٹیکس کے شعبے میں اپنے بندے بٹھا دیئے ۔ انڈسٹری اور بزنس میں اپنے لوگ متعارف کروائے۔ سیاست میں اپنے حامیوں میں پہلی صف میں لا کھڑا کیا اور یوں امریکہ صرف تین عشروں میں پوری تیسری دُنیا اور آدھی سے زیادہ دوسری دُنیا کا گاڈ فادر بن گیا۔

وہ اب دُنیا کا حقیقی بادشاہ ہے۔ اس نے نیویارک اور واشنگٹن میں وزرائے اعظم کی فیکٹری لگائی اور اس میں دھڑا دھڑ وزیرِ اعظم تیار کرکے تیسری دُنیا میں ایکسپورٹ کرنا شروع کر دیئے ۔یہ تمام کے تمام وزرائے اعظم، چہرے مہرے حرکات و سکنات اور زبان و بیان اور وضع قطع کے اعتبار سے مقامی لوگوں جیسے ہوتے ہیں لیکن یہ اندر سے پورے امریکی ہوتے ہیں اور یہ مقامی لوگوں میں رہ کر امریکی مفادات کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں۔ امریکہ تیسری دُنیا کو وافر مقدار میں وزرائے خزانہ، وزرائے تجارت اور جدید ٹیکس اور قرضہ جات کے مشیر بھی مہیا کرتا ہے۔ اس لیے پہلے ہی معلوم ہوتا ہے کہ جو نئی حکومت آئی تو کونسا وزیرِ خزانہ ہو گا۔ کون وزیر خارجہ ہو گا اور وزیر دفاع کے لیے کس کا انتخاب کیا جائے گا۔ امریکہ اکانومی کو بہتر کرنے کے گُر سکھانے کے بہانے مقامی تاجروں، صنعت کاروں، ریئل اسٹیٹ نائیکونز کو بھی اپنے ہاتھوں لے لیتا ہے اور ان لوگوں کے ذریعے سے تیسری دُنیا کی معیشت سے کھیلتا رہتا ہے اسی فارمولے کے تحت اس نے تیسری دُنیا کے تمام حکمرانوں اور بادشاہوں نے اربوں کھربوں اپنے بینکوں یا اپنے زیرِ اثر یورپی ملکوں میں منتقل کروا دیئے ہیں اور اُن کو اب حقیقی معنوں میں کٹھ پُتلی بنا لیا ہے اُن کا دل ، دماغ اور زبان امریکہ کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔

امریکہ تیسری دُنیا کے میڈیا کو بھی اپنے ہاتھ کا کھلونا بنا لیتا ہے اس کے ذریعے سے تیسری دُنیا کی ثقافت بدل دی جاتی ہے وہ تیسری دُنیا کے 100 سے زائد ممالک کا بجٹ بھی واشنگٹن میں تیار کرتا ہے وہ سات سمندر پار بیٹھا تیسری دُنیا والوں کے لیے اشیائے ضروریہ چینی، گھی، دالوں، کپڑوں، پٹرول تک کے نرخ طے کرتا ہے۔ حقیقت میں وہ اس وقت پوری تیسری دُنیا کا گاڈ فادر حکمران ہے!

اپنا تبصرہ بھیجیں