وہ نہ آئے تو ہَوا بھی نہیں آیا کرتی – مظفر وارثی

مظفّرؔ وارثی

وہ نہ آئے تو ہَوا بھی نہیں آیا کرتی
اُس کی خوشبُو بھی اکیلی نہیں آیا کرتی

ہم تو آنسو ہیں ہَمَیں خاک میں مِل جانا ہے
میّتوں کے لیے ڈولی نہیں آیا کرتی

بِستَرِ ہِجر پہ سویا نہیں جاتا اکثر
نیند آتی تو ہے، گہری نہیں آیا کرتی

علی الاعلان کِیا کرتا ہُوں سچّی باتیں
چَور دروازے سے آندھی نہیں آیا کرتی

صِرف رنگوں سے، کبھی رَس نہی ٹپکا کرتا !
کاغَذی پُھول پہ تتلی نہیں آیا کرتی

عِشق کرتے ہو تو آلودۂ شِکوہ کیوں ہو؟
شہد کے لہجے میں تلخی نہیں آیا کرتی

موت نے یاد کِیا ہے کہ، مظفر اُس نے
اپنی مرضی سے تو ہِچکی نہیں آیا کرتی

! وہ نہ آئے تو ہَوا بھی نہیں آیا کرتی

وہ نہ آئے تو ہَوا بھی نہیں آیا کرتی – مظفر وارثی” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں