غزلیات (حصّہ اوّل)
۱۔ مری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں
۲۔ اگر کج رَوہیں انجم، آسما ں تیرا ہے یا میرا؟
۳۔ گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر
۴۔ اثر کرے نہ کرے، سُن تو لے مری فریاد
۵۔ کیا عشق ایک زندگیِ مستعار کا
۶۔ پریشاں ہو کے میری خاک آخر دِل نہ بن جائے
۷۔دِگرگُوں ہے جہاں، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
۸۔ لاپھر اک بار وہی بادہ وجام اے ساقی!
۹۔ مِٹا دیا مرے ساقی نے عالمِ من وتُو
۱۰۔ متاعِ بے بہا ہے دردو سوزِ آرزو مندی
۱۱۔ تجھے یاد کیا نہیں ہے مِرے دل کا وہ زمانہ
۱۲۔ ضمیرِ لالہ مئے لعل سے ہُوا لب ریز
۱۳۔ وہی میری کم نصیبی، وہی تیری بے نیازی
۱۴۔ اپنی جولاں گاہ زیرِ آسماں سمجھا تھا میں
۱۵۔ اک دانشِ نورانی، اک دانشِ بُرہانی
۱۶۔ یا رب! یہ جہانِ گزراں خوب ہے لیکن
غزلیات (حصّہ دوم )
۱۔ سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا
۲۔ یہ کون غزل خواں ہے پُرسوزو نشاط انگیز
۳۔ وہ حرفِ راز کہ مجھ کو سِکھاگیا ہے جنُوں
۴۔ عالمِ آب وخاک وباد، سرِّعیاں ہے تُوکہ میں
۵۔ تُوابھی رہ گزرمیں ہے، قیدِ مقام سے گزر
۶۔ امینِ راز ہے مردانِ حُر کی درویشی
۷۔ پھر چراغِ لالہ سے روشن ہُوئے کوہ ودمن
۸۔ مسلماں کے لہُو میں ہے سلیقہ دِل نوازی کا
۹۔ عِشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیروبم
۱۰۔ دِل سوز سے خالی ہے،نِگہ پاک نہیں ہے
۱۱۔ ہزار خوف ہو لیکن زباں ہودِل کی رفیق
۱۲۔ پُوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی
۱۳۔ یہ حوریانِ فرنگی، دِل ونظر کاحجاب
۱۴۔ دلِ بیدار فاروقی، دلِ بیدارکرّاری
۱۵۔ خودی کی شوخی وتُندی میں کِبروناز نہیں
۱۶۔ میرِ سپاہ ناسزا، لشکریاں شکستہ صف
۱۷۔زمِستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
۱۸۔ یہ دیرِ کُہن کیا ہے؟ انبارِخس وخاشاک
۱۹۔ کمالِ تَرک نہیں آب وگِل سے مہجوری
۲۰۔ عقل گوآستاں سے دُور نہیں
۲۱۔ خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
۲۲۔ یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صبح گا ہی
۲۳۔ تری نگاہ فرومایہ، ہاتھ ہے کوتاہ
۲۴۔ خِرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
۲۵۔ نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے
۲۶۔ نہ تُو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
۲۷۔ تُواے اسیرِ مکاں! لامکاں سے دُور نہیں
۲۸۔ خِرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
۲۹۔ افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
۳۰۔ ہر شے مسافر، ہر چیز راہی
۳۱۔ ہر چیز ہے محوِ خود نُمائی
۳۲۔ اعجاز ہے کس کا یاگردشِ زمانہ
۳۳۔ خردمندوں سے کیاپُوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
۳۴۔ جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی
۳۵۔ مجھے آہ وفغانِ نیم شب کا پھر پیام آیا
۳۶۔ نہ ہو طُغیانِ مشتاقی تو مَیں رہتا نہیں باقی
۳۷۔ فطرت کوخِرد کے رُوبرو کر
۳۸۔ یہ پیرانِ کلیساوحرم، اے وائے مجبوری
۳۹۔ تازہ پھر دانشِ حاضر نے کیا سِحرِ قدیم
۴۰۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
۴۱۔ ڈھُونڈ رہا ہے فرنگ عیشِ جہاں کادوام
۴۲۔ خودی ہو عِلم سے محکم تو غیرتِ جبریل
۴۳۔ مکتبوں میں کہیں رعنائیِ افکار بھی ہے؟
۴۴۔ حادثہ وہ جوابھی پردۀ افلاک میں ہے
۴۵۔ رہا نہ حلقۀ صوفی میں سوزِ مشتاقی
۴۶۔ ہُوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں چاک
۴۷۔ یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہرِ یک دانہ
۴۸۔ نہ تخت وتاج میں نے لشکرو سپاہ میں ہے
۴۹۔ فطرت نے نہ بخشا مجھے اندیشۀ چالاک
۵۰۔ کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
۵۱۔ کی حق سے فرشتوں نے اقبالؔ کی غمّازی
۵۲۔ نے مُہرہ باقی نے مُہرہ بازی
۵۳۔ گرمِ فُغاں ہے جَرس، اُٹھ کہ گیا قافلہ
۵۴۔ مِری نَواسے ہوئے زندہ عارف وعامی
۵۵۔ ہر اک مقام سے آگے گزرگیا مہِ نَو
۵۶۔ کھو نہ جا اس سَحر وشام میں اے صاحبِ ہوش
۵۷۔ تھا جہاں مدرسۀ شیری وشاہنشاہی
۵۸۔ ہے یاد مجھے نکتۀ سلمانِ خوش آہنگ
۵۹۔ فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر وسپاہ
۶۰۔ کمالِ جوشِ جنُوں میں رہا مَیں گرمِ طواف
۶۱۔ شعور وہوش و خِرد کا معاملہ ہے عجیب
قطعہ ( اندازِ بیاںگرچہ بہت شوخ نہیں ہے )